تعلی

( تَعَلّی )
{ تَعَل + لی }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے اسم مشتق ہے اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨١٠ء کو میر کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - شیخی، لن ترانی، ڈھینگ۔
"ان ننھے ننھے ہاتھ پاؤں پر یہ تعلی۔"      ( ١٨٩٢ء، خدائی فوجدار، ١٤٢:١ )
٢ - برتری، بڑائی، بزرگی، ترقی۔
 کبھی مایہ نازو تعلی ہے کبھی مضطر دل کی تسلی ہے کبھی پرتو برق تجلی ہے کبھی جلوہ فراز عرش بریں      ( ١٩١٣ء، نقوش مانی، ٦ )
٣ - [ شاعری ]  شاعر کا اپنے حق میں مبالغہ (خواہ ملیح ہو خواہ قبیح)، اپنی بڑائی جتانے کا عمل۔
"شاعر تو میں نہیں مگر "شعربند" ضرور ہے جب تعلی پر اتر آتا ہے تو میں ہوں یا مرزا سب بارہ پتھر باہر ہو جاتے ہیں۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٣٤:٧ )
  • becoming high or elevated;  highness
  • eminence;  exalting oneself
  • appearing conspicuous