"یہ حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے مقبول یار و اصحاب ہیں . جن کی تلوار کی دھاک سے روئے زمین کے بادشاہ لرزتے تھے۔"
( ١٩١٦ء محرم نامہ، ٨٨ )
٢ - رعب دعب، دبدبہ، جاہ و جلال۔
"اس ہزیمت اور پسپائی سے جو کچھ عزت اور دھاک نواب صاحب اور محمد اسمٰعیل خان کی تھی بالکل جاتی رہی۔"
( ١٩٣٠ء، غدر کا نتیجہ، ٣٠ )
٣ - دھوم، شہرہ، غلغلہ، شہرت۔
"میری دیانتداری کی دھاک تھی، پہلے تو لوگ ذرا دیتے ہوئے گھبراے مگر پھر روپے کا مینہ برسنے لگا، وجہ یہ تھی کہ صاحب میرے ہاتھ میں۔"
( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین فرحت، ٧١:٦ )