افواہ

( اَفْواہ )
{ اَف + واہ }
( عربی )

تفصیلات


فوہ  فَوَہٌ  اَفْواہ

عربی زبان سے مشتق اسم 'فَوَہٌ' کی جمع 'افواہ' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨١٧ء کو "کلیات سودا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع   : اَفْواہیں [اَف + وا + ہیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : اَفْواہیں [اَف + وا + ہوں (و مجہول)]
١ - غیر مستند یا اڑائی ہوئی خبر، عام چرچا۔
 ہو جن افواہوں سے دو ہمسایہ قوموں میں فساد بے تکلف آپ انہیں اخبار میں دیتے ہیں چھاپ      ( ١٩٣٨ء، چمنستان، ظفر علی خاں، ١٩٠ )
اسم نکرہ ( مذکر - جمع )
جمع   : اَفْواہیں [اَف + وا + ہیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : اَفْواہوں [اَف + وا + ہوں (و مجہول)]
١ - دہن، منھ، زبانیں (انسانوں کی)۔
"تفصیلی حالات جو کتابوں میں درج ہوئے اور صرف افواہ خلالق پر جاری ہوں کسی طرح اس ترتیب کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔"      ( ١٨٨١ء، مقالات حالی، ١٤٨:٢ )