اکبر

( اَکْبَر )
{ اَک + بَر }
( عربی )

تفصیلات


کبر  اَکْبَر

عربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور صفت اور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ
١ - فرمانروایان ہند میں چغتائی (موسوم بہ مغلیہ) خاندان کا تیسرا فرمانروا (بابر کا پوتا، ہمایوں کا بیٹا) جلال الدین محمد اکبر (1542 -1605) اس کا نام متعدد تلمیحات کے طور پر ادبیات میں مستعمل اور اکبر اعظم کے نام سے مشہور ہے۔ بہت سی چیزیں (سکے اوزان وغیرہ) اس کی نسبت سے اکبری کہلاتی ہیں۔ اس کے نو وزیر تھے جو نورتن کہلاتے تھے۔
 اک تختہ ہفت کشور دہلی کا ہے ہمارے نو آسمان ہیں اپنے اکبر کے نورتن میں      ( ١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ١٠٨ )
٢ - امام حسین کے منجھلے بیٹے کا نام جو شکل و صورت میں حضورۖ سے مشابہ تھے، اٹھارہ برس کی عمر میں جہاد کربلا میں شہید ہوئے۔
 ہاں عمر جاوداں کی ہمیں بھی نوید دے اے موت اے جوانی اکبر کی آرزو      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٥٠ )
٣ - [ منطق - نکرہ ]  قیاس منطقی کے نتیجے کا محمول یا مبتدا کی خبر۔
"نتیجے کے موضوع کو اصغر کہتے ہیں اور محمول کو اکبر۔"      ( ١٨١٧ء، مبادی الحکمۃ، ٨٧ )
صفت ذاتی ( واحد )
جمع   : اکابِر [اکا + بِر]
١ - مرتبے یا عمر کا جسامت وغیرہ میں بڑا، بہت بڑا، سب سے بڑا۔
 جو منزل قرآن مبیں ہے وہ محمدۖ جو خالق اکبر کا امیں ہے وہ محمدۖ      ( ١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ٩،٢ )
  • عَظِیْم