الف

( اَلِف )
{ اَلِف }
( عربی )

تفصیلات


الف  اَلِف

عربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم نیز صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - اللہ کا مخفف جو عموماً خطوں یا نسخوں یا دستاویزوں کے شروع میں لکھا جاتا ہے (بیشتر اس طرح: ا)۔
 ہوتی نہ یاد زلف جو خط شکستہ میں لکھتے الف خطوں کی نہ پیشانیوں میں ہم      ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ١٢٢ )
٢ - سیدھی کھڑی لکیر یا خط وغیرہ۔
"نشان کی شکل دو الفوں کی ہوتی ہے۔"    ( ١٩٣٨ء، آئین اکبری (ترجم)، ٣٧٥:١ )
٣ - چھڑی وغیرہ کی مار کا نشان، بٹ۔
 معلم نے چھڑیاں لگائیں کہ چھریاں الف دیکھیو اس تن نازنیں کے    ( ١٨٢٤ء، مصحفی، کلیات، ٤٠١:٢ )
٤ - عنوانات یا اوراق وغیرہ کی ترتیب کا نمبرا۔
"خاکہ الف میں نعل سازی کی ساری ایڑی سے شو تک یکساں موٹائی کی ہے۔"      ( ١٩٠٥ء، دستورالعمل نعلبندی اسپاں، ١٠٢ )
٥ - مرد مجرد۔ (مطلع العلوم (ترجمہ) ، 220)۔
٦ - (ریاضی وغیرہ) مفروضہ شخص شے مقدار یا عدد وغیرہ۔
بے راہ روی کا ذمہ دار انجینئر نہیں بلکہ کوئی اور مثلا الف ہے۔"      ( ١٩٣٥ء، بھرے بازار میں، ١٨٤ )
٧ - سیدھا، راست۔
 ظاہر ہے قد سے عشق شہنشاہ لو کشف ایمان کا نون بن گیا قامت کا اب الف      ( ١٩٤٧ء، مراثی، نسیم (قلمی نسخہ)، ٥٣:٣ )
  • the first letter of the Arabic
  • Persian and Urdu alphabets