دھواں

( دُھواں )
{ دُھواں }
( پراکرت )

تفصیلات


دھونو  دُھواں

پراکرت الاصل لفظ 'دھونو' سے ماخوذ 'دھواں' اردو میں بطور اسم نیز گا ہے بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - غضب کا، ستم ڈھانے والا۔
 دونوں ابرو دھواں عجب گردن ساری نکھ سکھ درست چال پری      ( ١٨٣٥ء، رنگین، دیوانِ رنگین و انشا، ٥٠ )
٢ - برائے کثرت، زور دار، پُرکار، زبردست۔
 انشا کی گفتگو وہ دھنواں گرم ہے کہ آج آکر بہار اوس کے گلے سے لپٹ گئی      ( ١٨١٨ء، انشاء، کلیات، ١٣٥ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : دُھوئیں [دُھو + ایں (ی مجہول)]
جمع   : دُھوئیں [دُھو + ایں (ی مجہول)]
١ - گیس جو کسی چیز کے جلنے یے سلگنے کی وجہ سے اوپر کو اُٹھتی اور بدلی کی طرح پیچ کھاتی نظر آتی ہے، سیاہ حدنگ دود۔
"درخت . ماحول کو گرد و غبار، دھوئیں اور بدبو سے پاک رکھتے ہیں۔"      ( ١٩٨٤ء، سندھ اور نگاہ قدر شناس، ١٤٠ )