برابری

( بَرابَری )
{ بَرا + بَری }
( فارسی )

تفصیلات


بَرابَر  بَرابَری

فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'برابر' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت یا نسبت ملنے سے 'برابری' بنا۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - برابر سے اسم کیفیت؛ ہمچشمی، ہمسری، رقابت۔
"دولت و ثروت کے لحاظ سے دلی کی برابری نہ کر سکے۔"    ( ١٩٢٤ء، وداع خاتون، ٥ )
٢ - مقابلہ، سامنا۔
 کہاں ہے یہ آئینے کی صورت کرے گا تیری برابری کیا ملانے نہ منہ وہ تیرے چہرے سے ہاتھ کنگن کو آرسی کیا    ( ١٩٢٥ء، دیوان شوق قدوائی، ٤٨ )
٣ - حرص، رہس۔
 چھاے دکھا کے شوخ دل آرا کو اپنے بھی کرنے لگا برابری اب دل سے آئنہ      ( ١٩٧٠ء، دیوان مہر، الماس درخشاں، ١٨٤ )
٤ - تکرار، بحث (گستاخی، بے ادبی کے ساتھ)۔
 بغل میں غیر ہے بڑھکر نہ گفتگو کرنا کہیں نہ آپ کی میری برابری ہو جائے      ( ١٨٧٢ء، دیوان عاشق، ٢١٨ )
٥ - مطابقت، موافقت۔ (نوراللغات، 605:1)
٦ - ہمواری، چورسائی۔ (فرہنگ آصفیہ، 380:1)
٧ - مساوات، عدل، یکساں برتاؤ۔
"کئی کئی بی بیوں میں (پوری پوری) برابری کر سکو تو بالکل ایک ہی طرف مت جھکو۔"      ( ترجمۂ قرآن، نذیر، ١٥٦ )
صفت نسبتی
١ - برابر سے منسوب، برابر کا۔
"مساوی القوت ہونے کا رشتہ تمام سیٹوں کے گروہ میں ایک برابری رشتہ ہے۔"      ( ١٩٦٩ء، نظریہ سیٹ، ٨٣ )