برزخ

( بَرْزَخ )
{ بَر + زَخ }
( عربی )

تفصیلات


برزخ  بَرْزَخ

عربی زبان میں رباعی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧٨٠ء کو "کلیات سودا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع استثنائی   : بَرازَخ [بَرا + زَخ]
١ - حائل، آڑ، روک، مزاحمت۔
 ناک اس شوخ کی برزخ کی طرح بیچ میں ہے تاکہ دو چشمیں نہ ایک ایک سے مل جاویں جھٹ      ( ١٨١٨ء، کلیات انشا، ٢٣٧ )
٢ - وہ چیز جو دو مخالف چیزوں کے بین بین کی چیز ہو اور جر نہ اس جیسی ہو نہ اس جیسی بلکہ درمیانی حالت میں ہو، (وہ چیز جس کی قسم و جنس کا تعین مشتبہ ہو جیسے کھجور حیوان اور نبات کے درمیان اور مونگانبات اور جماد کے درمیان اور اعراف بہشت اور دوزخ کے درمیان ہے)۔
"ان دونوں مرتبوں کے بیچ میں شیوان کے اس مرتبے کی حیثیت گویا برزخ کی ہے۔"      ( ١٩٥٦ء، مناظر احسن گیلانی، عبقات، ١٤٣ )
٣ - موت سے قیامت تک کا زمانہ۔
"اے بھائی ہماری تعلیم برزخ نے تناسخ کو ہیچ اور ناکارہ ثابت کر دیا ہے۔"      ( ١٩٢٨ء، حیات طیبہ، ١١٧ )
٤ - خیالی صورت، تصوراتی شکل، وہ خاکہ جو تصورات اور خیالات کی بنا پر دل و دماغ میں قائم ہو۔
"تمام انبیا کے واقعات زندگی کا خلاصہ ان کی تعلیمات کا عطر اور ان کے حالات و مشاہدات کا برزخ ہے۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ ٧:٣ )
٥ - ہیت، شکل، دھج، وضع قطع (عموماً انوکھی اور عجیب)۔
"ان دونوں نے جو ایک نئی برزخ کا بوڑھا میانے میں لدا ہوا دیکھا تو مسکراتے ہوئے آگے بڑھے۔"      ( ١٩٤٣ء، دلی کی چند عجیب ہستیاں، ٢٧ )
٦ - دو حالتوں کے ورود کے درمیان کا وقفہ۔ (فرہنگ آصفیہ، 388:1)
٧ - [ تصوف ]  اصطلاح صوفیہ میں چند مواقع پر مستعمل۔
"یہ سب برزخ بطور کلی کے ہیں بلکہ ہر ہر فرد عالم میں ہے نیز برزخ سے مراد صورت مرشد کا تصور کرنا اور اس سے اخذ فیض کرنا ہے۔"      ( ١٩٢١ء، مصباح التعرف لارباب التصوف، ٥٩ )
  • a thing that intervenes between two things;  a thing that makes a separation between two things or classes of things;  interval
  • bar
  • partition;  connecting link;  the interval between death and the resurrection;  a picture of the imagination;  a whimsical idea
  • fashion
  • or mode;  a strange or quaint appearance