بچت

( بَچَت )
{ بَچَت }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر 'بچنا' کا حاصل مصدر ہے اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٨٥ء کو "تعلیم الاخلاق" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - باقی ماندہ، بچا ہوا، جو کچھ صرف کرکے رہ گیا ہو۔
"ہم کو جو کچھ اسکول میں ناشتہ کے لیے ملتا ہے یہ اس کی بچت تھی۔"      ( ١٩١٨ء، مراری دادا، ١٣ )
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : بَچَتیں [بَچَتیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : بَچَتوں [بَچَتوں (واؤ مجہول)]
١ - بچنے، باقی رہنے، ضائع نہ ہونے یا محفوظ رہنے کی صورت حال۔
"اپنی کمائی کی بچت کی یہی صورت ہے کہ سونے چاندی کی صورت میں اس کو رکھیں۔      ( ١٩٠٤ء، آئین قیصری، ١٣٩ )
٢ - کفایت، کم خرچ ہونے کی صورت۔
"ریلوے بے واسطہ ایک گماشتہ بچت کا ہے۔"      ( ١٩٠٧ء، کرزن نامہ، ١٤٠ )
٣ - فائدہ نفع۔
"جس بنج میں چار پیسے کی بچت ہو وہ کرو۔"      ( ١٨٨٨ء، فرہنگ آصفیہ، ٣٧٠:١ )
٤ - تحفظ، بچاو۔
 گر زبردست سے بچت چاہو زبردستوں پہ تم کرو الطاف      ( ١٩٤٥ء، فلسفہ اخلاق، ٣٦ )