معصوم

( مَعْصُوم )
{ مَع + صُوم }
( عربی )

تفصیلات


عصم  مَعْصُوم

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق صفت ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت اور گاہے بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : مَعْصُوموں [مَع + صُو + موں (و مجہول)]
١ - محفوظ کیا ہوا، باز رکھا ہوا، (مجازاً) پاک، صاف (عموماً گناہ سے)۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہر گناہ سے معصوم ہیں۔"      ( ١٩٧١ء، معارف القرآن، ٨٠:٧ )
٢ - [ مجازا ]  بے گناہ، بے قصور، پاک دامن۔
"سات سال کی عمرمیں ان معصوم آنکھوں نے وہ اندھیری رات دیکھی تھی جس نے سب کچھ چھین لیا تھا۔"      ( ١٩٩٥ء، صحیفہ، لاہور، جولائی تا دسمبر، ١٤ )
٣ - [ مجازا ]  بھولا بھالا، سیدھا سادہ۔
"ہم تمہیں بہت بھولی معصوم سمجھتے تھے۔"      ( ١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ١٢٨ )
٤ - [ مجازا ]  ننھا، کم سن، بہت چھوٹا۔
"ایک پل کے لیے اس نے یہی سوچا کہ اب زندگی بیکار ہے . دل نے کہاں نجمہ تجھے اب اپنے معصوم بچوں کی خاطر زندہ رہنا ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، بیلے کی کلیاں، ١٢ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : مَعْصُوموں [مَع + صُو + موں (و مجہول)]
١ - ننھا بچہ، کم سن بچہ نیز یتیم بچہ۔
"ایک لکڑہارا تھا اس کی تین بیٹیاں . ابھی چھوٹی تھیں کہ ان کی ماں مر گئی، کھانا پکانے اور ان معصوموں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے لکڑ ہارے نے دوسری شادی کر لی۔"      ( ١٩٧٨ء، براہوی لوک کہانیاں، ١٢٩ )
٢ - [ مرادا ]  شہدائے کربلا، خصوصاً حضرت امام حسین کے چھوٹے فرزند علی اصغر۔
 دود اگلا، لہوڈالا، ڈر اکھا کر سہم اور سرو وہ معصوم کا معصوم ہوا      ( ١٨٧٥ء، دبیر، رباعیات، ٤٨ )