کھوکھلا

( کھوکھْلا )
{ کھوکھ (و مجہول) + لی }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے اردو میں دخیل اسم 'کھوکھ' کے ساتھ 'لا' بطور لاحقہ نسبت تذکیر بڑھانے سے 'کھوکھلا' بنا۔ اردو میں بطور صفت نیز شاز بطور اسم استعمال ہوتا ہے اردو میں سب سے پہلے ١٨٦١ء کو "کلیاتِ اختر" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : کھوکھْلے [کھوکھ (و مجہول) + لے]
جمع   : کھوکھْلے [کھوکھ (و مجہول) + لے]
جمع غیر ندائی   : کھوکھْلوں [کھوکھ (و مجہول) + لوں (و مجہول)]
١ - [ کنایۃ ]  ڈھانچہ، پجِرَ، جذبات سے یکسر عاری (ہڈیوں کا)۔
 کھوکھلا ہوگئی تھی کھا کھا کے پیڑ رکھتی تھی اپنے دادا کے      ( ١٨٦١ء، کلیاتِ اختر، ٩٧١ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : کھوکھْلی [کو کھ (و مجہول) + لی]
واحد غیر ندائی   : کھوکھْلے [کھوکھ (و مجہول) + لے]
جمع   : کھوکھْلے [کھوکھ (و مجہول) + لے]
جمع غیر ندائی   : کھوکھْلوں [کھوکھ (و مجہول) + لوں (و مجہول)]
١ - کھوکھل، اندر سے خالی، جوف دار، بے مغز، پولا، تھوتھا۔
"ارکلا ایک کھوکھلا پہاڑ ہے جہاں تک رسائی بہت ہی مشکل تھی۔"      ( ١٩٨٦ء، دنیا کا قدیم ترین ادب، ٤٦٣:١ )
٢ - خلا دار، خراب، ناقص، فَرْسُودہ، خستہ، اندر سے خالی۔
"جو شخص خُدا کے خوف اور اسکی خوشنودی پر اپنی عمارت کی بنیاد رکھے وہ بہتر یا وہ جو پھسپے کھوکھلے کگارے کے کنارے پر اپنی عمارت کی بنیاد رکھے۔"    ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٤٨:٢ )
٣ - بُراخ، بے مغز، وہ ضمیر جس میں برے بھلے کی تمیز نہ ہو، گندہ، خراب۔
"کھوکھلے ضمیر والے ہمیشہ گردشِ ایام کے بوٹوں سے ٹھکرائے جاتے ہیں۔"    ( ١٩١٣ء، انتحابِ توحید، ٨٠ )
٤ - بناوٹی، ظاہری، جھوٹا، جذبات سے عاری، دکھاوے کا۔
"جانے کس بات پر اوپندر ناتھ اشک نے اتنی زور سے قہقہہ لگایا کہ مجھے وہ کھوکھلا اور بناوٹی معلوم ہوا۔"      ( ١٩٨٨ء، یادوں کے گلاب، ١٤٦ )