خالی

( خالی )
{ خا + لی }
( عربی )

تفصیلات


خلو  خالی

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے ماخوذ اسم صفت ہے۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ گاہے بطور اسم اور شاذ متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٤٢١ء کو "معراج العاشقینذ میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - جہاں یا جس میں کچھ نہ ہو، تہی، بھرا کا نقیض۔
"فلیپ کے سیٹ اور ری سیٹ کو خالی نہیں چھوڑتے۔"      ( ١٩٨٤ء، ماڈل کمپیوٹر بنائیے، ١٧٥ )
٢ - صرف، محض، فقط۔
"ہم بولی کے بھی اسی حصے کو دیکھ سکتے ہیں اور دیکھتے ہیں جو ہمارے سامنے ہے۔"    ( ١٩٧٥ء، اردو کی کہانی، ٩ )
٣ - نام جو بغیر کسی القاب و آداب کے لیا جائے۔
"میں نے آج اس بات پر غور کیا کہ تم منصور کا نام بھی لیتی ہو بھائی وائی نہیں کہتیں۔"    ( ١٩٣٩ء، شمع، ٥٩٠ )
٤ - اکیلا، تنہا۔
"جو رنڈیاں اپنی اپنی جگہ آشناؤں کے ساتھ یا خالی سوتی تھیں، اٹھ کر تماشا دیکھنے لگیں۔"      ( ١٨٧٧ء، طلسم گوہر بار، ١٤ )
٥ - جسے کوئی کام نہ ہو، بیکار، فارغ (بیٹھنا کے ساتھ مستعمل)۔
"ہم دن بھر خالی بیٹھے چارئیاں توڑا کرتے ہیں۔"      ( ١٩٠٤ء، خالد، ٣٥ )
٦ - آنکھ کے ساتھ جس پر عینک یا کوئی دوسری چیز مددگار ہو، انسان کی نظر۔
"خالی آنکھوں سے بجز عینک کے دکھلائی نہیں دیتا۔"      ( ١٩٢٤ء، انشائے بشیر، ٢٨٥ )
٧ - بغیر نقطے کا حرف، حرف غیر منقولہ۔
"کسی زمانے میں مکتب کا محاورہ تھا الف خالی ب کے نیچے ایک نقطہ۔"      ( ١٩٧٥٧، اچھے مرزا، ٨٥ )
٨ - خالی الذہن۔
 جنگ جو یار کا اصلاح پر آیا نہ مزاج عقل سے ہوتا ہے فی الواقعی جاہل خالی      ( ١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ١٩٥ )
٩ - چھوڑی ہوئی جگہ، بغیر لکھے۔
 کیا عداوت ہے کہ خط میں بھی مرے نام کی جا چھوڑ دیتا ہے بت حور شمائل خالی    ( ١٨٧١ء، کلیات تسلیم، ١٩١ )
١٠ - کورا، سادہ کاغذ۔
 سراپا موقلم بن جاتں بند آنکھیں اگر کر لوں اتاروں صفحۂ خالی پہ تیرا ہو بہو نقشا    ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، میخانۂ الہام، ٤ )
١١ - مصرا۔
 گو نہ دیکھے کبھی جھک کر سرِ عالی میرا داغ حسرت سے گریباں نہیں خالی میرا    ( ١٩٥٨ء، تارپیراہن، ١١٧ )
١٢ - خلا۔
"ابن طفیل کی رائے یہ تھی کہ فلک الافلاک ثوابت کے اوپر اوپر اور بالکل خالی ہے۔"    ( ١٩٢٠ء، رسائل عمادالملک، ٦٢ )
١٣ - کھوکھلا، مصریٰ۔
 جنوں ہی سے نہ گر بالکل دل دیوانہ خالی ہے نہ مانوں گا اثر سے نعرۂ مستانہ خالی ہے    ( ١٩٢٣ء، کلام جوہر، ١٢٢ )
١٤ - جس کے پاس روپیہ پیسا نہ ہو، تہی دست، مفلس۔
 ہاتھ خالی آئی لاشوں پر شہیدوں کے نسیم پھول بھی اس فصل میں ایسے گراں پیدا ہوئے۔١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٤٦٣:١
١٥ - غیرآباد جس میں کوئی رہتا نہ ہو (مکان وغیرہ کے لیے مستعمل)۔
 ہمیں ذوقِ اسیری چھوڑتا ہے کب گلستان میں قفس میں جب تک اے صیاد کوئی خانہ خالی ہے    ( ١٩٢٣ء، کلام جوہر، ١٢٣ )
١٦ - سونا، سنسان، ویران، اجڑا ہوا۔
"اربوں انسان اس خالی زمین پر آباد کیے جا سکتے ہیں۔"    ( ١٩٧٧ء، ابراہیم جلیس، الٹی قبر، ٥٢ )
١٧ - مبرا، الگ، جدا۔
 بادہ نوشی مری، غفلت سے ہے خالی واعظ ہوں گنہ گار اگر آپ سے باہر میں ہوں      ( ١٩١٥ء، جان سخن، ٩٤ )
١٨ - بچا ہوا، محفوظ، مامون۔
"ایک غیر شخص کا جماعت کے ارازوں سے اس قدر واقف ہونا خالی از خطرہ نہیں ہے۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ١١٧:٣ )
١٩ - محروم، نامراد، خالی ہاتھ۔
"یہ دالان بھی اس لیے ہے کہ کرم کے طلب گار رحمت کے امیدوار خالی نہ جائیں۔"      ( ١٩٧٢ء،خ میاں کی اٹریا تلے، ٢٣ )
٢٠ - ابر سے عاری، وہ حصہ جہاں بادل نہ ہوں (آسمان کے ساتھ)۔
"ہاں آسمان ایک جگہ سے تو خالی نظر آتا ہے۔"      ( ١٩٢٨ء، سلیم، افادات سلیم، ٦٤ )
٢١ - جس پر کچھ رکھا نہ ہو، بے بار، بن لدا (زین گھوڑے وغیرہ کے ساتھ)۔
"خالی زمین پر بیٹھ جاتے اسی جگہ کھانا نوش کرتے۔"      ( ١٨٧٣ء، مطلع العجائب (ترجمہ)، ٧ )
٢٢ - فرصت کا (وقت وغیرہ کے ساتھ مستعمل)۔
"دنیا کے حال پر غور کرنا نہایت ضرور ہے اور یہ غور فائدے سے خالی نہیں۔"      ( ١٨٦٨ء، مراۃ العروس، ٢٨٦ )
اسم ظرف زماں ( مذکر - واحد )
١ - چاند کا گیارہواں مہینہ ذیقعد، جس کے معنی صاحب قیام ہیں، عرب اس مہینہ میں جنگ و جدل موقوف رکھتے تھے ملکہ نورجہاں نے اس کا نام خالی رکھ دیا، جس کے سبب لوگوں نے اس ماہ میں شادی بیاہ بھی موقوف کر دیا، جاہل اسے منحوس خیال کرتے ہیں۔
"ہم خالی کی تیسری تاریخ کو عالم ارواح سے اس تیرہ خاکدان عالم میں رونق افروز ہوئے۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ١٨٥:٣ )
٢ - [ طب ]  نبض کی رفتار کی ایک لہر۔
"انسان کے عروق کے نظام کا ہروقت متغیر ہونا مثل سریع اور بطی اور ممتلی اور خالی اور قوی اور ضعیف ہوئے نبض کے ایسی بدیہی بات ہے۔"      ( ١٨٧٧ء، رسالہ تاثیرالانتظار، ١٢ )
متعلق فعل
١ - یوں ہی، خواہ مخواہ، بے مقصد، بلاوجہ۔
"باجی اماں کی ددا کا آنا خالی نہیں ہے کچھ نہ کچھ سبب ہے۔"      ( ١٩١١ء، قصہ مہر افروز، ٣٤ )
  • alone
  • by oneself
  • singly;  idly
  • unemployed