بھوت

( بھُوت )
{ بھُوت }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٧٩ء کو "قصۂ تمیم انصاری (قدیم)" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جنسِ مخالف   : بھُتْنی [بھُت + نی]
جمع غیر ندائی   : بھُوتوں [بھُو + توں (واؤ مجہول)]
١ - خبیث روح، دیو، جن، غول، چھلاوہ۔
 باہم شب وصال غلط فہمیاں ہوئیں مجھ کو پری کا شبیہ ہوا ان کو بھوت کا      ( ١٩٢١ء، کلیات اکبر، ٣٤٧:١ )
٢ - مخلوقات، کوئی زندہ چیز۔
"جتنے بھوت (مخلوقات) ہیں سو اس کا روپ ہیں۔"      ( ١٨٩٠ء، ترجمہ جوگ بششٹھ، ٣٦٠:٢ )
٣ - [ فلسفہ ]  عناصر خمسہ (مٹی پانی آگ ہوا اور رایتھر) میں سے کوئی ایک عنصر۔
"دیو نہ وشنو ہے نہ کیشو ہے نہ کوئی پنچ بھوتوں سے بنا ہوا شریر دھاری ہے۔"      ( ١٨٩٠ء، جوگ بششٹھ، ٢٤٣ )
٤ - [ قواعد ]  زمانۂ ماضی، گزرا ہوا زمانہ۔
"پرماتما بھوت بھوشیٹ اور ورتان تینوں کال کا حال جاننے والا ہے۔"      ( ١٩٣٨ء، بھگوت گیتا اردو، ٢٠٤ )
٥ - وجود، وجود واقعی، ہونا، پیدا، سچ مچ ہونا، صدق، سچ، درست، مناسب، ایک قسم کا چھوٹا دیوتا؛ ایک قسم کی بد روح (ہند عقیدے کے مطابق مرگھٹ کا بھوتنا یا بیتال جو درخت پر بسیرا کرتا یا الٹا لٹکا رہتا ہے جو اپنی شرانگیزی سے انسان کو ہلاک کر دیتا ہے)، (قانون) مقدمے کی حقیقی صورت حال، امر واقعی۔ (پلیٹس، جامع اللغات، 565:1)
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - بد، شریر، سرکش، شیطان، موذی۔
"خدا کی شان ہے کہ اولیاؤں کے ہاں تم جیسی بھوت پیدا ہوئیں۔"      ( ١٩١٠ء، لڑکیوں کی انشا، ٤٤ )