بھرا

( بَھرا )
{ بَھرا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر 'بھرنا' کا صیغہ ماضی مطلق ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : بَھری [بَھری]
واحد غیر ندائی   : بَھرے [بَھرے]
جمع   : بَھرے [بَھرے]
١ - پُر، لبریز، بھرا ہوا۔
 مژگان خون فشاں کی حقیقت نہ پوچھیے پچکاریاں بھری ہیں محبت کے رنگ سے      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢٠٥ )
٢ - پرگوشت، گول گول، گداز (عموماً تکرار کے ساتھ)۔
 شانے وہ گول گول وہ بازو بھرے بھرے فرقت میں جن کی حور نہ تکپے پہ سر دھرے      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٢٢٥:٩ )
٣ - غضبناک، پر غیظ، کشیدہ خاطر۔
 پر غضب رہتے ہیں اغیار سے خالی ہو کر مجھ سے جس وقت وہ ملتے ہیں بھرے ملتے ہیں      ( ١٩٠٧ء، دیوان راسخ دہلوی، ١٥٠ )
٤ - آباد (عموماً گھر کے ساتھ)۔
"پھوپی کے دل سے پوچھو جس کا بھرا گھر آج سونا ہو گیا۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٢٣٩ )
٥ - سارا، کل، پورا۔
 آج سے وہ سب مسلمانوں کے سر کا تاج ہے دے رہی ہے یہ شہادت قوم کی مجلس بھری      ( ١٩٠٠ء، کلیات نظم حالی، ٩٢:٢ )
٦ - بھرپور، نقطۂ عروج پر پہنچ جانے والا، ٹھیک، عین۔
 جن کے جیوں کا روگ ہوں ہجر سے زندگانیاں چھین لے ان سے اے خدا ان کی بھری جوانیاں      ( ١٩٢٥ء، عالم خیال، ١٨ )
٧ - موجود، جمع، اکٹھا۔
 کہ قدرت میں اس کی ہے کیا کیا بھرا مسبب کے اسباب دیکھو ذرا      ( ١٧٨٤ء، سحرالبیان، ١٠١ )
  • filled
  • filled with
  • full
  • full of
  • replete
  • brimful