فنا

( فَنا )
{ فَنا }
( عربی )

تفصیلات


فنا  فَنا

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیاتِ قلی قطب شاہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت
١ - موت، نیستی، ہلاکت، (بقا کی ضد)۔
"بدلتے موسم نشانیاں دے رہے ہیں دیکھ، یہاں ہر ہر چیز کو فنا ہے۔"      ( ١٩٨١ء، اکیلے سفر کا اکیلا مسافر، ١٠٦ )
٢ - [ تصوف ]  زوال تفرقہ و تمیز درمیان قدیم اور حدوت کے .... اس حالت میں جو کچھ سالک سے قولاً یا فعلاً یا عملاً صادر ہوتا ہے وہ حق ہے ہوتا ہے۔
"عبودیت انکسار کی تلقین کرتا ہے اور مرتبہ فنا کے سوا اپنی شو مئی تقدیر کا کوئی مداور نہیں پاتا۔"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٨٠٦:٣ )
٣ - معدوم، ناپید، نیست و نابود۔
"مادے کی ایک چھوٹی سی مقدار فنا ہو کر توانائی یعنی انرجی کے بہت بڑے ذخیرے میں تبدیل ہوتی ہے۔"      ( ١٩٧٣ء، نیوکلیائی توانائی، ١ )
٤ - مستغرق، ڈوبا ہوا۔
 ہے امر محال آج کل سخت سلوک غمگیں تو رہ فنا ہمیشہ فی الذات      ( ١٨٣٩ء، مکاشفۃ الاسرار، ٢٠ )
  • mortality
  • fatility
  • perdition
  • destruction
  • death