مواد

( مَواد )
{ مَواد }
( عربی )

تفصیلات


مد  مَواد

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم 'مادہ' کی جمع ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٨٤٤ء کو "مفید الاجسام" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - جمع )
واحد   : مادَہ [ما + دَہ]
١ - زخم یا پھوڑے وغیرہ کی رطوبت، پیپ؛ مراد: غلاظت، کثافت، آلائشِ زخم۔
"اسکے جسم میں ایک زور دار ٹیس اُٹھی جسے پھوڑا پھٹ گیا ہو اور مواد کا موار اُڑا ہو۔"      ( ١٩٦٠ء، دھاتوں کی کہانی، ٦ )
٢ - [ مجازا ]  کسی چیز کی تیاری سے پہلے اسکے خام اجزا جس سے وہ چیز بنے گی، کسی شے کی تیاری کا بنیادی سامان، کسی چیز کے اجزائے ترکیبی، ضروری اجزا؛ لوازم، اسباب۔
"یہ رولر پلاسٹک مواد سے تیار کئے جاتے ہیں۔"      ( ١٩٧٨ء، آفسٹ لیتھوگرافی، ٧٠ )
٣ - کوئی چیز جو کام کرنے یا ترقی دینے کے لیے خام شے کا کام دے۔
"ادب. میں ظالم کی کلائی مروڑنے کی کچھ ہمت بھی ہونی چاہیے، اس "ہلاشیری" میں صحافتی کالموں کی آواز سب سے بلند سنائی دیتی ہے زندگی کی خوبیاں اور خامیاں ادب کا مواد ہیں۔"      ( ١٩٩٠ء، حرمِ ضعیفی، ٩ )
٤ - کسی معاملے کے وہ تمام متعلقات جن سے وہ معاملہ صورت پذیر ہو، آثار مبادی اور دلائل، دلیل، وجوہ، براہین۔
"ہمارے یہاں خود نوشت اور سوانحی مواد کا فقدان ہے"      ( ١٩٨٤ء، اردو افسانہ اور افسانہ نگار، ٧ )
٥ - [ ادب ]  نثر یا نظم میں بیان کیا گیا مضمون، موضوع۔
"معتبر خاکے نہ صرف اچھے مواد کا کام دیتے ہیں بلکہ مواد کی صحت و شہادت کا بھی۔"      ( ١٩٩٩ء، قومی زبان، کراچی، مارچ، ٩ )
٦ - کسی شے کی اصل و بنیاد جو اس شے کا قوام ہو، اخلاط، مادے کی اصل خصوصیات اجزا وغیرہ۔
"گاجر کا حلوہ ہوتا بہت لذیذ ہے مگر مفید مواد اس سے آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں۔"      ( ١٩٣٢ء، مشرقی و مغربی کھانے، ١٨ )
٧ - [ مجازا ]  بخار، کدورت، دل میں بیٹھی ہوئی باتیں۔
 جھانجھ ہے آج ان کے غصے کی دل کا سارا مواد نکلے گا      ( ١٨٨١ء، منیر شکوہ آبادی (مہذب اللغات) )
٨ - [ مجاز ]  کچرا، گندگی۔
"نخالص تیل کی ملاوٹ ہو تو پٹرول کی کچھ مواد پھنس جاتا ہے۔"      ( ١٩٧٣ء، منو بھائی کے گریبان، ١٦٠ )