میاں

( مِیاں )
{ مِیاں }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ کلمہ ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی اور متداول ساخت کے ساتھ عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - آقا، مالک، حاکم، سردار، بزرگ، والی وارث۔
"آقا کے لفظ کی بجائے میاں کے لفظ کا استعمال اسی رجحان کی مثال ہے"      ( ١٩٨٦ء، فورٹ ولیم کالج، تحریک اور تاریخ، ١٨٠۔ )
٢ - شوہر، خاوند، خصم۔
"تمہارے میاں کا سنگھار پٹار ختم نہیں ہوا"      ( ١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٤٠٣۔ )
٣ - کلمۂ محبت و شفقت برائے اطفال، صاحبزادے، ننھے، مُنا، پیارے، بیٹا، جانی؛ جیسے میاں آوے دوروں سے گھوڑے باندھ کھجوروں سے۔
"میاں حلوہ لایا ہوں آپ کی بھابھی نے بنایا ہے" وہ بولے"      ( ١٩٨٩ء، دلی دور ہے۔ ٢٧٦۔ )
٤ - صاحب، جناب کی جگہ؛ ایک کلمہ ہے جس سے برابر والوں یا اپنے سے کم مرتبہ شخص کو خطاب کرتے ہیں۔
"ایک طرف ہو جاؤ میاں، ادھر عورتیں آ رہی ہیں"      ( ١٩٨٧ء، روز کا قصہ، ٢٢٠۔ )
٥ - شاعروں کے تخلص تعظیم کے لیے بڑھاتے ہیں؛ جیسے: میاں ناسخ، میاں مصحفی، میاں جرات، میاں عشق۔
 مجھے شمع کہتی ہے محفل میں اوس کی میاں بحر آنسو بہانے سے حاصل      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ١٢٠۔ )
٦ - پیارے، محبوب، دلبر، دلربا، جاناں (عموماً قدیم شعرا معشوق کے لیے استعمال کرتے تھے)۔
 فقیرانہ آئے صدا کر چلے میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے      دہن میں آپ کے البتہ ہم کو حجت ہے کمر کا بھید جو پوچھوں میاں نہیں معلوم      ( ١٨١٠ء، کلیات میر، ٣٤٤۔ )( ١٨٤٦ء، کلیات آتش، ٩٧۔ )
٧ - استاد، معلم، مدرِس، پڑھانے والا، ملا۔
"ادھر انہوں نے کوئی غلط لفظ پڑھا میاں نے ٹوکا"      ( ١٩٨٧ء، گردشِ رنگ چمن، ٥٤٢۔ )
٨ - آقا زادہ، مخدوم زادہ، امیرزادہ، شہزادہ، صاحب عالم، کنور۔
"چوڑی دار باجامہ میں ملبوس وکی میاں شاداں و فرحاں برآمدے میں آئے"      ( ١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٤٠٤۔ )
٩ - پہاڑی راجپوت، راجاؤں کے خاندانی لوگ، ٹھاکر، شہزادے، شاہی خاندان کے لوگ۔ (فرہنگ آصفیہ)
١٠ - [ ہندو ]  بیوقوف مسلمان، مورکھ، دیوانہ، باؤلا (طنزاً) جیسے: ایک تو میاں ہی تھے دوحے کھاٹی بھنگ۔ (فرہنگ آصفیہ)
١١ - [ بقال ]  عام مسلمان،ترک، ملا (جو سادات اور پیران طریقت میں سے نہیں لیکن معزز لقب سمجھ کر اختیار کرتے تھے، جیسے: میاں چراغ محمدصاحب وغیرہ)
"لفظ 'میاں' مسلمانوں کے نام کے ساتھ بھی ایک اعزازی لقب کے مستعمل ہوتا ہے"      ( ١٩١٠ء، طنزیات و مقالات، ٣٩٣۔ )
١٢ - [ لکھنؤ ]  ماہرفن موسیقی، پکا گویّا، کلانوت، مراثی، ڈوم۔ (فرہنگ آصفیہ؛ جامع اللغات)
١٣ - بعض علاقوں میں بچے باپ کو بھی کہتے ہیں۔
"میاں جان کے پرانے دوست، میاں جان مرحوم ان کے لیے مقدمے لڑا کرتے تھے"      ( ١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٦٢۔ )
١٤ - [ طنزا ]  صاحب، جناب (خطاب کا کلمہ)
"تو میاں پرکاش" اب تم بھی کاٹھ کے اُلو بنائے جاؤ گے بس چپ چاپ بیٹھے رہنا کسی طاق میں"      ( ١٩٨٧ء، روز کا قصہ، ٢٢٠۔ )
١٥ - [ تعیظما ]  بزرگ ہستی؛ پیرانِ طریقت اور پیرزادوں کے نام سے پہلے۔
"صوبہ جات متحدہ میں، حضرت اچھے میاں صاحب مارہرہ شریف، حضرت میاں شاہ فضل غوث صاحب بریلی، حضرت مذاق میاں صاحب، حضرت مولای محمد دلدار علی صاحب قبلہ بدایوں"      ( ١٩١٠ء، طنزیات و مقالات، ٣٩٧۔ )
١٦ - [ مجازا ]  مرشد، پیر۔
"کسی نے میرا نام مجذوب رکھا ہے، قربان اگر میاں اپنے اندر مجھے جذب کر لیں"      ( ١٩٧٠ء، غارِ کارواں،١٤١۔ )
١٧ - [ غیرمسلم ]  (عموماً امرا) اپنے نام سے پہلے معزز گرداننے کے لیے لکھتے تھے۔
"میاں گودروسن سنگھ و میاں پرومن سنگھ روسائے انبالہ"      ( ١٩١٠ء، طنزیات مقالات۔ )
١٨ - مراد: اللہ تعالٰی
"جلال ایسا کہ عام انسان تو کجا خود میاں کے اپنے چہیتے قدم رکھتے ہی مارے خوف کے رو دیا کرتے"      ( ١٩٧١ء، میاں کی اٹریا تلے، ١٧۔ )
١٩ - عام درویشوں فقیروں کے لیے مستعمل۔
"سلطان جی صاحب میں ایک نئے میاں صاحب ٹھہرے ہوئے ہیں"      ( ١٩١٠ء، طنزیات و مقالات، ٣٩٧۔ )
٢٠ - معمولی گداگروں کے لیے مستعمل۔
"میاں صاحب اس وقت برکت ہے"      ( ١٩١٠ء، طنزیات و مقالات، ٣٩٨۔ )
٢١ - [ تعطیما ]  سادات کے نام کے بعد۔
"سادات کے لیے. مثلاً سید گلاب میاں انیس و مصاحب خاص حضور والئ ریاست پالن پور"      ( ١٩١٠ء، طنزیات و مقالات، ٣٩٧۔ )