مدیر

( مُدِیر )
{ مُدیر }
( عربی )

تفصیلات


دور  مُدِیر

عربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨٩٧ء کو "تمدن عرب" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع   : مُدِیران [مُدی ران]
جمع غیر ندائی   : مُدِیروں [مُدی + روں (و مجہول)]
١ - گھمانے والا؛ (مجازًا) دائرے دار، چکر والا۔
"اندلس میں ایک نئی طرزِ عمارت پیدا ہوئی جسے مدیر کہتے ہیں اور یہ طرز مدت دراز تک باقی رہی"      ( ١٨٩٧ء، تمدن عرب، ٢٦٦۔ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : مُدِیران [مُدی + ران]
جمع غیر ندائی   : مُدِیروں [مُدی + روں (و مجہول)]
١ - کسی ادارے کا مہتمم، نگراں، منیجر۔
"مدیر کارخانہ ہر چیز کا ملاحظہ کراتے تھے، تمام کلیں اپنے کام میں سرگرم تھیں"    ( ١٨٩٩ء، شہنشاہ جرمنی کا سفر، قسطنطنیہ، ٢٠۔ )
٢ - کسی صوبے کا حاکم، گورنر (اسٹین گاس؛ جامع اللغات)
٣ - اخبار یا رسالے وغیرہ کا ایڈیٹر۔
"رسالے کی عمر اس کے مدیر کی عمر کے عشر عشیر بھی نہیں ہوتی"      ( ١٩٩٤ء، ڈاکٹر فرمان فتح پوری: حیات و خدمات، ٥٦٨:٢۔ )