تماشا

( تَماشا )
{ تَما + شا }
( عربی )

تفصیلات


مشو  تَماشا

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بغور اسم ہی استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : تَماشے [تَما + شے]
جمع   : تَماشے [تَما + شے]
جمع غیر ندائی   : تَماشوں [تَما + شوں (و مجہول)]
١ - دید، نظارہ، دیکھنا۔
 تماشا کہ اے محوِ آسینہ داری تجھے کس تَمنّا سے ہم دیکھتے ہیں      ( ١٨٦٩ء، دیوانِ غالب، ١٧٩ )
٢ - دلچسپ منظر۔
 مختلف شکلوں میں اس کو جلوہ گر دیکھا کئے یہ تماشا ہم تو بیٹھے عمر بھر دیکھا کئے      ( ١٩١٩ء، درشہوار، بیخود، ٩٩ )
٣ - حالت، کیفیت۔
 ترے ہجر میں جان پر کھیلے کیا کیا تماشے رہے ہیں یہاں کیسے کیسے      ( ١٩٠٣ء، نظم نگاریں، ١٣٢ )
٤ - تفریح اور دل بستگی کا کھیل جس میں ناچ، گانا یا اُچھل کود ہو، ڈرامہ۔
"اس تماشا (ڈرامہ) کے حصے کر دیئے گئے۔"      ( ١٩٣٩ء، ریزۂ مینا، ٩ )
٥ - کرتب، شعبدہ، نمائش۔
"ولید بن عقبہ جو صحابی تھے کوفہ کے گورنر تھے ایک دفعہ ایک یہودی نے ان کے سامنے شعبدہ بازی کے تماشے دکھائے۔"      ( ١٩٠٤ء، مقالاتِ شبلی، ١٩٥:١ )
٦ - ہنسی کھیل، بازیچہ، آسان کام۔
"دنیا کی زندگی تو نرا کھیل تماشا ہے۔"      ( ١٨٩٥ء، ترجمہ قرآن مجید، نذیر احمد، ٢٠٩ )
٧ - عجب یا انوکھی بات۔
"عجیب تماشا ہے! وہ بولا تم پولیس والے بھی عجیب لوگ ہو۔"      ( ١٩٤٤ء، صید و صیاد، ١٤٢ )
٨ - ایسی شے یا حالت بن جانا جسے لوگ حیرت اور شوق سے دیکھیں۔
"فارسی کے مولوی صاحب ایک تماشا تھے، لمبا چہرہ سرخ و سفید رنگت. ہر وقت پان کھاتے رہتے تھے۔"      ( ١٩٤٧ء، مضامینِ فرحت، ٥:٤ )
٩ - دل لگی کی چیز، مذاق، تفریح طبع کا سامان ۔
"حسن آراء کے چوچلے اور اسکے نوکروں کی نازبرداریاں دیکھ کر. مکتب کی لڑکیوں کو اچھا خاصا تماشا مل گیا۔"      ( ١٨٧٣ء، بنات النعش، ١٤ )