اصلی

( اَصْلی )
{ اَص + لی }
( عربی )

تفصیلات


اصل  اَصْلی  اَصْلی

عربی زبان کے لفظ 'اصل' کے ساتھ فارسی قاعدے کے تحت 'ی' بطور لاحقۂ نسبت لگائی گئ ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( مؤنث - واحد )
١ - ملک فارس (ایران) کی ایک راگنی کا نام۔ (غنچۂ راک، 45)
صفت نسبتی
١ - ذاتی، جو کسی سے ماخوذ یا مستفاد نہ ہو؛ طبعی، فطری، پیدائشی۔
"سرسید کا اصلی ذوق علمی و ادبی تھا۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٢٣٥ )
٢ - قدیمی؛ آبائی۔
"یہ جگہ بھی میرا وطن اصلی نہیں۔"      ( ١٨٠٢ء، خود افروز، ١٥٣ )
٣ - حقیقی، واقعی، سچ مچ کا۔
"ترجمے کے قدرتی اور اصلی اسباب اور تھے۔"      ( ١٩٥٣ء، حکمائے اسلام، ٧٢:١ )
٤ - خالص، جس میں ملاوٹ یا بناوٹ کو دخل نہ ہو، کھرا (نقلی یا مصنوعی کی ضد)۔
"بجائے اس کے کہ کاغذ کے پھول پنکھڑیاں بنائیے قدرت حق کا تماشا دیکھیے جہاں بھانت بھانت کے اصلی پھول اور پنکھڑیوں کے لازوال خزانے موجود ہیں۔"      ( ١٨٩٣ء، مقدمۂ شعر و شاعری، ٦١ )
٥ - مقدم، پہلا، بنیادی۔
"اس کی اصلی یعنی پہلی بیوی نے اپنے شوہر سے کہا کہ میں اسے کالی چیل بنا دوں گی۔"      ( ١٩٣٧ء، قصص الامثال، ٢١٣ )
٦ - صحیح، قاعدے کی رو سے درست۔
"اس غزل میں پروانہ، پیمانہ، بت خانہ تین قافیے اصلی ہیں۔"      ( ١٨٦٩ء، غالب، خطوط، ٢٠١ )
٧ - وہ حرف جو کلمے کے مادے میں شامل اور اس کا جزو ہو(مزید فیہ کے بالمقابل)۔
"وہ تو اتنا بھی نہیں جانتا کہ یائے اصلی کیا ہے اور یائے زائدہ کیا۔"      ( ١٨٦٩ء، غالب، خطوط، ٢٨٠ )
٨ - پشیتنی، نسلی۔
"ترکیوں اور ایرانیوں میں خصومت جبلی اور مخالفت اصلی ہے۔"      ( ١٨٢٤ء، سیر عشرت، ٣٣ )
٩ - اچھی نسل کا، خاندانی، نسبت کا کھرا۔
"اصلی نجیبوں کے لڑکے تلاش کیے جاتے جو شکل و صورت میں بھی اچھے ہوتے، کوئی کمی بھی ان کے اندر نہ ہوتی۔"      ( ١٩٧٠ء، غبار کارواں، ١٥ )
١٠ - [ مال گزاری ]  "وہ موضع جس کا نام سرکاری کاغذات میں درج اور چھوٹے چھوٹے داخلی گاؤں یا کھیڑے اس سے ملحق ہوں۔" (اصطلاحات پیشہ وراں، 6 :8)