مخلوق

( مَخْلُوق )
{ مَخ + لُوق }
( عربی )

تفصیلات


خلق  مَخْلُوق

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم صفت ہے۔ اردو میں بطور صفت اور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٤٠ء کو "کشف الوجود، (قدیم اردو)" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع   : مَخْلُوقات [مَخ + لُو + قات]
جمع استثنائی   : خَلْق [خَلْق]
١ - پیدا کیا ہوا، پیدا کیا گیا، خلق کی ہوئی یا بنائی شے۔
"بہت جلد انسان کا ایمان اپنی تخلیق شدہ مخلوق سائنس پر اتنا مستحکم ہوتا چلا گیا کہ بے اختیاری میں اس نے اپنی مخلوق کے ذریعے ملکوں اور قوموں کو تباہ کرنا شروع کر دیا۔"      ( ١٩٩٠ء، پاگل خانہ، ١١ )
٢ - رچا ہوا، پتن کیا ہوا۔ (فرہنگ آصفیہ)۔
٣ - [ فلسفہ ]  پیدا کیے جانے کی حالت، خلق کیا ہوا ہونا۔
"جس طرح جبر مخلوق ہے اُسی طرح اختیار مخلوق ہے اور اختیار کا مخلوق کا جبر ہونا نہیں ہے۔"      ( ١٩٧٣ء، مسئلہ جبر و قدر، ٤٩ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : مَخْلُوقات [مَخ + لُو + قات]
١ - دنیا کے لوگ، دنیا والے۔
"اگر میں پاک ثابت ہو جاؤں تو خدا کی مخلوق کو میری بے گناہی کا یقین ہو جائے۔"      ( ١٩٣٤ء، قرآنی قصے، ٦٩ )
٢ - خلقت، دینا، کائنات، خلق ہستی، عالم، عالم کون و فساد۔
"یہ مخلوق آسمان کے دیوی دیوتا بن گئے۔"      ( ١٩٩٠ء، بھولی بسری کہانیاں (بھارت)، ٧٤:٢ )
٣ - [ مجازا ]  بہت سے لوگوں کا مجمع، حم غضیر، خلقت۔
 اوس بت کے ہمیں نہیں ہیں بندے مخلوق غلام ہو گئی ہے      ( ١٨٧٨ء، گلزارِ داغ، ٢٧٦ )