آخری

( آخِری )
{ آ + خِری }
( عربی )

تفصیلات


اخر  آخِر  آخِری

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق، اسم فاعل 'آخِر' کے ساتھ فارسی قاعدہ کے تحت 'ی' بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے 'آخری' بنا اور اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٩٧ء، میں "پنج گنج" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت نسبتی
١ - (سلسلے میں) اخیر کا، سب سے بعد کا، انتہائی، اختتامی، خاتمے کا۔
 اس کے کوچے میں مری خاک کو کرنا برباد آخری تجھ سے وصیت ہے نسیم سحری      ( ١٩١٠ء، سرور جہاں آبادی، خمکدہ سرور، ٢٠ )
٢ - قطعی، مختتم، دو ٹوک، جیسے : آخری بات کہہ دو کتنے تک لینا ہے۔
"جب تک 'آخری' فیصلہ نہ ہو ان کا بال نہ بیکا ہو"      ( ١٩٢٠ء، عزیزہ مصر، ٣٣ )
١ - آخری چار شنبہ کرنا
گھر کے برتن بھانڈے پھوڑنا، دند مچانا، گھر کی چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکنا۔"اس کو مار، اس کو پیٹ، گھر میں آخری چار شنبہ کر ڈالا۔"      ( ١٩٧٣ء، بابائے اردو، لغت کبیر، ١٧٢:١ )
٢ - آخِری سلام کہنا | کرنا
کسی امر یا شخص کو خیرباد کہنے یا ترک کر دینے کا عمل۔"اب یہی قصد ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو اس پیشہ کو آخری سلام کروں۔"      ( ١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٣٥٨ )
٣ - آخِری گھڑیاں گننا
موت کا انتظار کرنا، نزع کا عالم ہونا۔"آمنہ مرحوم کی علالت کی تشخیص ہو چکی تھی . اس کی آخری گھڑیاں گنی جا رہی تھیں۔"      ( ١٩٢٩ء، خطوط محمد علی، ٢٠٣ )
٤ - آخری ہچکی لینا
مر جانا۔"میں نے کہا یہ بوڑھا .، آخری ہچکی لے چکے اور نوخیر متوالے . کے سہرا بندھ چکے تو جانا۔"      ( ١٩١٦ء، اتالیق خطوط نویسی، ٤٩ )
  • last
  • ultimate;  of or belonging to the end;  latter