باطل

( باطِل )
{ با + طِل }
( عربی )

تفصیلات


بطل  باطِل

عربی زبان میں ثلاثی مجرد سے مشتق صیغۂ اسم فاعل ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٦٠٩ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : باطِلَہ [با + طِلَہ]
جمع استثنائی   : باطِلِیْن [با + طِلِیْن]
جمع غیر ندائی   : باطِلوں [با + طِلوں (و مجہول)]
١ - جھوٹا، غیر حق، حقیقت کے خلاف، حق کی ضد۔
 باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم سوبار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا      ( ١٩٠٨ء، بانگ درا، ١٧٢ )
٢ - بیکار، فاسد، بے اثر، بے نتیجہ، ضائع۔
 امید رکھتی ہے سرگرم جستجو دل کی خدا دراز کرے عمر سعی باطل کی      ( ١٩٥٠ء، ترانۂ وحشت، ٧١ )
٣ - رد، منسوخ۔
"ایک نبی پیدا ہوں گے جن کا دین دوسرے تمام ادیان کو باطل کرے گا۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت اللہ بیگ، مضامین، ٢٧٥:٤ )
٤ - کالعدم، بالکل ختم۔
"بنومغیرہ کے سود خوار عرب میں مشہور تھے، فتح مکہ کے بعد حضور نے ان کی تمام سودی رقمیں باطل کر دیں۔"      ( ١٩٦١ء، سود، مودودی، ١٥٧ )
٥ - پوچ، لغو، بیہودہ۔
 محیط کل کے معنی ظاہری گر لیں تو باطل ہے حدوں سے ہے مبرا، حد کے اندر آ نہیں سکتا      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، میخانۂ الہام، ٢ )
٦ - نادرست، ناقابل قبول۔
 کب اہل دول سے ہوئی معبود پرستی باطل ہے اگر سجدہ کریں تاج زری سے      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢١٣ )
٧ - [ تصوف ]  ماسوی اللہ تمام کائنات اور مخلوقات جو صوفیوں کے نزدیک معدوم ہیں۔ (مصباح التعرف لارباب التصوف، 55)