باطن

( باطِن )
{ با + طِن }
( عربی )

تفصیلات


بطن  باطِن

عربی زبان میں ثلاثی مجرد سے صیغۂ اسم فاعل مشتق ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت گاہے بطور اسم اور کبھی کبھی بطور متعلق فعل بھی مستعمل ہے۔ ١٥٠٠ء میں "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع استثنائی   : باطِنِین [با + طِنِین]
جمع غیر ندائی   : باطِنوں [با + طِنوں (و مجہول)]
١ - مخفی، پوشیدہ، پنہاں، چھپا ہوا، جو نظر نہ آ سکے، ظاہر کی ضد۔
 وہ عالم کل علم کے ماہر ہیں محمد باطن ہے جو اللہ تو ظاہر ہیں محمد      ( ١٩١٢ء، شمیم، مسدس نعتیہ، ٤ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع استثنائی   : باطِنِین [با + طِنِین]
جمع غیر ندائی   : باطِنوں [با + طِنوں (و مجہول)]
١ - کسی شے کا اندرونی حصہ، وہ جوفہ جو کسی سطح کے اندر ہو، اندرونی عضو۔
 سمجھا میں اب اے میرے جلتے دل یہ وہ سوزش ہے جو پتھر کے شعلے کی طرح باطن میں تیرے تھی نہاں    ( ١٩١٢ء، نقوش مانی، ٤ )
٢ - (کسی شے کی اوپری سطح کے بالمقابل) نیچے کا حصہ۔
"باطن سے مراد نیچے موزے کے ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں وارد ہوا ہے۔"    ( ١٨٧٦ء، نورالہدایہ (ترجمہ)، ٦٦:١ )
٣ - اندرون، دل، روح، نفس، ضمیر۔
 امت سے یہاں دل میں کدورت نہ برائی میراث محمد ہے یہ باطن کی صفائی      ( ١٩٤٣ء، مرثیۂ نجم (مصور حسین)، ٩ )
٤ - روحانی قوت، روحانیت۔
"مصر میں صاحب باطن ولی مولانا سید مرتضیٰ کے فرمانے سے مجھے والدین کے انتقال کا کھٹکا ہوا تھا۔"      ( ١٩٢٣ء، طاہرہ، شرر، ١٣٦ )
٥ - اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام۔
 خالق تو ہی مالک تو ہی غفار تو ہی ہے ظاہر تو ہی باطن تو ہی ستار تو ہی ہے      ( ١٩٤٣ء، اختر تاباں (سجاد علی خاں اختر)، ١ )
٦ - [ فقہ ]  عضو کا وہ رخ جو عام طور سے پوشیدہ رہتا ہو، جیسے پاؤں کا باطن تلوا، ہاتھ کا باطن ہتھیلی۔
"ایک انگلی یا دو تین انگلیوں کے باطن سے دھووے۔"      ( ١٨٦٧ء، نورالہدایہ (ترجمہ)، ٨١:١ )
٧ - مفہوم اصلی جو الفاظ سے بالاتر ہو، مغز کلام، تاویل، نفس الامر۔
"علوم کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔"      ( ١٩٠٦ء، الکلام، ١٧٤:٢ )
متعلق فعل
١ - چھپا کر، پوشیدگی میں، دل میں، علانیہ کی ضد۔
 گردن جھکی ہوئی ہے زبان گو ہے شکوہ سنج باطن ہے انقیاد جو ظاہر ملال ہے      ( ١٩١٤ء، شبلی، کلیات، ٩٥ )