بال[2]

( بال[2] )
{ بال }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور معنی میں ہی مستعمل ہے۔ ١٧٩٥ء میں 'قائم' کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : بالوں [با + لوں (واؤ مجہول)]
١ - پرند کا بازو جس میں پر ہوتے ہیں اور جس کی طاقت سے وہ اڑتا ہے، پر، پنکھ۔
غوطے کھا کھا کے جو اڑتے ہیں بصد لطف و سرور پھڑ پھڑانے میں برستا ہے پر و بال سے نور      ( ١٩٤٢ء، مراثی نسیم، ٤٠٣:٢ )
١ - بال و پر لگنا
بال اور پر نکلنا جسم امام پاک پہ تیر اس قدر لگے فطرس کے بادشاہ کو یہ بال و پر لگے      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ، ١٤۔ )
رفتار میں تیزی آ جانا، قوت پرواز پیدا ہو جانا۔ آغا مری تلاش کو کیا بال و پر لگے لے پہنچی حشر میں بھی مجھے یار کی تلاش      ( ١٨٧٨ء، آغا، دیوان، ٥٥۔ )
٢ - بال و پر نکالنا
ہوش سنبھالنا، نشوونما پانا، اڑنے کے قابل ہونا، طاقتور ہونا۔"حکومت کی نوازش سے اس زبان نے خوب بال و پر نکالے ہیں"      ( ١٩٤٣ء، مقالات گارسان دتاسی (ترجمہ)، ١٤٩:٢ )
پر پرزے جھاڑنا، ہمت یا جسارت کرنا۔ گلی میں اس پری رو کی کیا ہے عزم اڑنے کا نکالا مرغ دل نے بال و پر آہستہ آہستہ      ( ١٧٣٩ء، کلیات سراج، ٤٠٣۔ )
شوخی یا گستاخی کرنا، شرارت یا فتنہ انگیزی کرنا۔ (پلیٹس: جامع اللغات، ٣٩١:١)
٣ - بال و پر ڈالنا
ہمت ہارنا۔ شہباز جاں نے ڈال دے تھک کے بال و پر قابو ملا نہ مرغ جنوں کے شکار کا      ( ١٩٠٠ء، دیوان حبیب، ٩۔ )
٤ - بال و پر کھولنا
اڑنے کا ارادہ کرنا، پر تولنا۔ تب ہوئی کچھ جھجک ہماری دور اور ہم نے بھی بال و پر کھولے      ( ١٩١١ء، کلیات اسماعیل، ٢٣٥۔ )
  • Wing
  • pinion;  arm