١ - گردن جھکا کر چلنا
گردن نیچی کر کے چلنا، خاموشی سے چلنا۔ بیشتر اس کے کہ ہم پھر سے مخالف سمت کو بے خدا حافظ کہے چل دیں جھکا کر گردنیں
( ١٩٧٨ء، جاناں جاناں، ٩٦ )
٢ - گردن جھکانا
گردن نیچی کرنا، گردن خم کرنا، سر جھکانا"سپاہی اس کا منہ دیکھنے لگا اس نے گردن جھکا دی"
( ١٩٧٠ء، یادوں کی برات، ٦٨۔ )
دوسرے کی گردن نیچے کرنا، زیر کرنا، مغلوب کرنا۔ کوئی دن میں نصاریٰ دیکھ لیں گے کہ ہم نے گردنیں ان کی جھکائیں
( ١٩٤١ء، چمنستان، ٤٤۔ )
حکم مان لینا، سر تسلیم خم کرنا، اطاعت کرنا۔ گردن نہ جھکا اگر ہو دشمن رستم احسان نہ لے دوست جو ہو حاتم طے
( ١٩٨٢ء، دست زرفشاں،١٢١ )
شرمندہ ہونا، نادم ہونا، سرتسلیم خم کرنا۔ان کی قابلیت و لیاقت کے سامنے گردنیں جھکا دیں"
( ١٩١٨ء، انگوٹھی کا راز،٧۔ )
ادب کرنا، لحاظ کرنا۔"عناصر سے "تو تو میں میں" پر ایک نظم ہے لیکن گردن جھکا کر کہنا پڑتا ہے "کہ یونہی سی ہے"
( ١٩٣٥ء، اودھ پنچ، لکھنءو، ٩:٢٣،٢٠ )
ادب سے سلام کرنا، آداب بجا لانا۔ جناب سلطان عشق وہ ہیں کرے جو اے داغ اک اشارہ فرشتے حاضر ہوں دست بستہ ادب سے گردن جھکا جھکا کر
( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ١٠٠۔ )
شرمندہ کرنا، زیر بار احسان کرنا۔ کون عالم میں ہے ایسا جو نہیں سربسجود کس کی گردن کو جھکاتا نہیں امکاں تیرا
( ١٨٤٢ء، آتش، کلیات، ٦٠۔ )
٣ - گردن خم کرنا
گردن جھکانا، زیر کرنا، مغلوب کرنا، تیغ جہاں کشا سے جھکایا سر عجم نوک سناں سے گردن روما کو خم کیا
( ١٩٣١ء، بہارستان، ٧٢۔ )
٤ - گردن کا بوجھ اتارنا۔
ذمہ داری سے سبکدوش کرنا۔ گر انباری سے ہم کو ہو گئی حاصل سبکباری اوتارا سر جو ظالم نے اوتارا بوجھ گردن کا
( ١٨٥٤ء، دیوان اسیر، ٣٦:٢۔ )
٥ - گردن کاٹنا
سر کو بدن سے جدا کرنا، قتل کرنا۔ کہ تو نے سید کا کھایا ہے سالن سزا ہے تیری کاٹی جائے گردن
( ١٨٦١ء، الف لیلہ نو منظوم، ٣٨٨:٢ )
حق تلقی کرنا۔ روزینہ بند کر نہ وضیع و شریف کا یہ ظلم ہے نہ گردن ہر خاص و عام کاٹ
( ١٨٩٢ء، شعور (نوراللغات) )
٦ - گردن اتارنا
سر کاٹنا، سر قلم کرنا۔ حکم جلاد کو کیا کہ ابھی تن سے گردن اتار بڑھیا کی
( ١٨١٠ء، ہشت گلزار (مہذب اللغات) )
٧ - گردن اٹھانا
گردن اونچی کرنا، سر اٹھا کر دیکھنا۔ جام شراب ناب ہے ساقی لیے، کھڑا گردن تو مثل گردن مینا اٹھایئے
( ١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ٢٥١ )
احسان مند نہ ہونا، برابری کرنا، سر اٹھا کے چلنا۔ اترا کے مرے حضور گردن نہ اٹھاءو یہ بارگہ بلند ہے ہوش میں آءو
( ١٩٤٧ء، سنبل و سلاسل، ٢٩٧ )
٨ - گردن (اڑا دینا | اڑانا)
سر تن سے جدا کر دینا، گردن کاٹنا، سر قلم کرنا، قتل کرنا، مار ڈالنا۔"ماموں رشید نے حکم دیا کہ ان سب کی گردن اڑا دو۔"
( ١٩٨٤ء، طوبٰی، ٤١٧ )
غارت کرنا، خاتمہ کر دینا، ملیامیٹ کر دینا۔"ایک صاحب بولے، آپ موضوع زیر بحث کی گردن اڑا رہے ہیں۔"
( ١٩٦٩ء، افسانہ کر دیا، ١٠٠ )
٩ - گردن اکڑانا
رعب اور دبدبہ دکھانا، اترنا، غرور کرنا۔"ہمیں تو گردن اکڑا کر، سینہ تان کر اور ایک خاص رعب دبدبے کے ساتھ چلنا چاہیئے۔"
( ١٩٨٥ء، تماشا کہیں جسے، ١٠٩ )
١٠ - گردن اونچی ہونا
گردن اوپر اٹھنا (شرم یا ندامت سے) جھکا ہوا سر اونچا ہونا، بار احسان سے نکل سکنا۔ دیکھ کر آئینہ اونچی تری گردن نہ ہوئی سچ کیا ہے کہ بڑے بول کا سر نیچا ہے
( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ١٧٢ )
١١ - گردن پر احسان ہونا
مرہون منت ہونا، بار احسان سے سر جھکا ہونا۔ جب سے اہل حسن کی گردن پہ ہے احسان عشق حسن کے پیکر میں جب سے جلوہ گر ہے جان عشق
( ١٩١٦ء، نقوش مانی، ٣٠ )
١٢ - گردن پر چھری چلانا
ذبح کرنا، گلا کاٹنا، گردن پر چھری پھیرنا۔"اگر کوئی ہماری گردن پر چھری بھی چلا دے تو اس کی آنکھوں میں آنسو نہ آئے۔"
( ١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٦٨:١ )
١٣ - گردن پر چھری چلنا
ذبح کیا جانا، گلا کاٹا جانا۔ کھول دے آنکھیں دم ذبح نہ دیکھوں گا تجھے پر چھری اپنی تو گردن پہ میں چلتی دیکھوں
( ١٨٥٤ء، ذوق (نور اللغات)۔ )
کمال ظلم ہونا، حق تلفی ہونا۔ (نور اللغات، علمی اردو لغت)۔
١٤ - گردن پر خون لینا
کسیک ے قتل کا گناہ سر پر ہونا، قتل کا مجرم ہونا۔ قربانی کا حکم ہے چلو یوں ہی سہی گردن پہ کسی غریب کا خوں ہی سہی
( ١٩٣٣ء، ترانہ یگانہ، ١٨٩ )
١٥ - گردن پر سوار ہونا
کسی بات یا کام کے لیے مجبور کرنا، پیچھے پڑنا۔"فقیر کی گردن پر سوار ہو کر اردو کی غزل لکھوائی۔"
( ١٨٦٥ء، خطوط غالب، ٥٠ )
سخت تقاضا کرنا، درشتی سے مطالبہ کرنا۔ نائی دھوبی کنجڑے بھٹیارے قصائی نابکار ایک کوڑی کے لیے ہوتے ہیں گردن پر سوار
( ١٨٧٩ء، جان صاحب، دیوان، ٢٩٢ )
١٦ - گردن پر لینا
سر پر اٹھانا، ذمے لینا۔"وہ بولیں کہ مرتی ہوں قرض کی فکر ہے کہ گردن پر لیے جاتی ہوں۔"
( ١٨٨٠ء، آب حیات، ٥٢٨ )
١٧ - گردن پکڑنا
گردن گرفت میں لانا، گردن جکڑ لینا، حاوی ہو جانا۔ غیرملکی ہاتھ نے گردن پکڑی قوم کی غیرملکی ہاتھ سے پنجہ کشی تو کیجیے
( ١٩٨٧ء، جنگ، کراچی، ١٨ جولائی، ٣ )
١٨ - گردن پھیرنا
سرکشی کرنا، حکم نہ ماننا، منحرف ہونا۔ جو ناجی ڈر نہ ہوتا معصیت کا نہ گردن پھیرتا فرماں سیں یوسف
( ١٧٤١ء، ناجی، دیوان، ١٣٠ )