سپر

( سِپَر )
{ سِپَر }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ ہے۔ اصلاً آوستائی زبان کا ہے۔ اس کے بعد پہلوی زبان میں آیا ہے اور وہاں سے فارسی میں داخل ہوا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٥٦٤ء سے "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - ایک ہتھیار جو تلوار کی ضرب سے محفوظ رہنے کے لیے استعمال ہوتا تھا اور عموماً کچھوے کی پیٹھ یا گینڈے کی کھال سے بنایا جاتا تھا، پھری، ڈھال۔
 وہ نفرتوں کی سپر دل پہ رکھ آتے ہیں وہ بدنصیب وہ محروم درد انسانی      ( ١٩٦٧ء، لہو پکارتا ہے، ٣٦ )
٢ - [ بانک بنوٹ ]  کلائی اور کہنی کی ضرب۔
"سید صاحب. سپر، گدکا، کشتی اور پیراکی میں بھی استاد تھے۔"      ( ١٩٢٦ء، حیات فریاد، ٨٣ )
٣ - آڑ، روک۔
"ابو طالب نے جو قریش کے ظلم و ستم کی سپر تھے مفارقت کی۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٨١:٢ )
٤ - پناہ، حفاظت؛ محافظ، مددگار، (ماخوذ: جامع اللغات)
  • shield
  • target.