بالغ

( بالِغ )
{ با + لِغ }
( عربی )

تفصیلات


بلغ  بالِغ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد سے صیغۂ اسم فاعل مشتق ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت اور گاہے بطور اسم مستعمل ملتا ہے۔ ١٦٠٩ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : بالِغَہ [با + لِغَہ]
جمع غیر ندائی   : بالِغوں [با + لِغوں (واؤ مجہول)]
١ - [ فقہ ]  وہ لڑکا جس میں تین باتوں میں سے ایک بات پائی جائے : پندرہ برس کی عمر، زیر ناف سخت بالوں کی روئیدگی یا احتلام؛ وہ لڑکی جس میں تین باتوں میں سے ایک بات پائی جائے : نو برس کی عمر، زیرناف سخت بالوں کی روئیدگی یا ماہواری۔
"اخطل نے پوچھا کہ تیری لڑکیاں کہاں ہیں سعید نے کہا اب وہ بالغ ہو گئی ہیں۔"      ( ١٩٠٤ء، مقالات شبلی، ١٢١:١ )
٢ - [ قانون ]  اٹھارہ برس کا لڑکا یا سولہ برس کی لڑکی۔
"لڑکی بالغ ہے اور اپنی مرضی سے لڑکے کے ساتھ گئی ہے اس لیے اغوا کا کیس نہیں چلایا جا سکتا ہے۔"      ( ١٩٥٣ء، سہ روزہ، مراد، ٣، ٣:٧ )
٣ - [ تصوف ]  مرید صادق جو اپنی خودی اور خودنمائی سے بالکل علیحدہ ہو۔ (مصباح التعرف لارباب التصوف، 57)
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : بالِغَہ [با + لِغَہ]
جمع   : بالِغاں [با + لِغاں]
جمع غیر ندائی   : بالِغوں [با + لِغوں (واؤ مجہول)]
١ - (لفظاً) رسا، پہنچنے والا، (مراداً) سیانا، سمجھداری کے سن تک پہنچا ہوا۔
"چھوٹی مچھلی بڑی مچھلی (بالغ) سے مختلف نظر آتی ہے۔"      ( ١٩٧٣ء، رسالہ جدید سائنس، دسمبر، ١٠ )
٢ - دور رس، فکر و نظر کے اعتبار سے پختہ۔
"شیخ جلیل محی الدین نے اس مقصد کی بالغ تحقیقات فرمائی ہے۔"      ( ١٩٤٠ء، اسفار اربعہ، ١٠٠٧:١ )