محل

( مَحَلّ )
{ مَحَلّ (فتحہ م مجہول) }
( عربی )

تفصیلات


حلل  حَل  مَحَلّ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق 'اسم' ہے اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٤٢١ء کو "بندہ نواز، معراج العاشقین" میں مستعمل ہوا۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - اترنے کی جگہ، مقام، منزل، ٹھہرنے کی جگہ، ٹھکانا۔
"دہقاں ہی نے تو آخر دوڑ دھوپ کر کے اس آفت کا محل و مورد تیار کیا تھا۔"      ( ١٩٤٢ء، انشائے ماجد، ٢٣٨:٢ )
٢ - موقع، وقت، جگہ۔
"تمام صاحبان ذوق ان کو موقع اور محل پر استعمال کرتے تھے۔"      ( ١٩٨٧ء، غالب فکرو فن، ٣١ )
٣ - بادشاہوں، راجاؤں یا نوابوں کا عالی شان مکان، ایوان، قصر نیز بادشاہوں وغیرہ کا زنانہ مکان، حرم۔
"قلی قطب شاہ نے مشاعروں کے لیے دربار کو ناموزوں خیال کرتے ہوئے ایک الگ محل تعمیر کروایا۔"      ( ١٩٩١ء، قومی زبان، کراچی، اپریل، ٥٠ )
٤ - [ مجازا ]  ملکہ، رانی، بیگم، کسی بڑے آدمی کی بیوی۔
"مسز کی جگہ 'محل' ہی نہیں 'مکان' کا لفظ استعمال کرتے رہے۔"      ( ١٩٧٤ء، پھر نظر میں پھول مہکے، ٥٧ )
٥ - ملکاؤں کے لقب میں بطور لاحقہ مستعمل، جیسے: ممتاز محل، زینت محل وغیرہ۔
"جب حضرت کو درد شروع ہوا. اس روز نوبت میمونہ محل کی تھی۔"      ( ١٧٣٢ء، کربل کتھا، ٢٦ )
٦ - [ مجازا ]  قدرو منزلت۔
 کوئی یوں سرکشی سے اپنی کہے کچھ لیکن سجدہ ہی کیجیے تجھے یہ ہے تیرا قدر و محل      ( ١٨١٠ء، میر، ک، ١١٨١ )