بدعت

( بِدْعَت )
{ بِد + عَت }
( عربی )

تفصیلات


بدع  بِدْعَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد سے مشتق ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے۔ ١٥٦٤ء میں "رسالۂ فقہ' میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : بِدْعَتیں [بِد + عَتیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : بِدْعَتوں [بِد + عَتوں (واؤ مجہول)]
١ - [ اسلام ]  دین میں کوئی ایسی نئی بات جس کا قرآن و سنت میں وجود نہ ہو، دین میں کوئی نئی رسم۔
"مذہب میں رہبانیت اور جوگ کا جو طریقہ ایجاد کیا گیا - اسلام کے صحیفے نے اس کو بدعت قرار دیا۔"      ( ١٩٣٥ء، سیرۃ النبی، ٣٦:٥ )
٢ - اختراع، احداث، نیا دستور، نئی رسم۔
"اکثر اس جسارت پر حیرت زدہ تھے اور اس جدت بلکہ بدعت کو شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ١٦٨ )
٣ - ظلم و تشدد، فتنہ و فساد، جھگڑا وغیرہ۔
"ان کے ملازمین متوسلین پر سخت بدعت کی۔"      ( ١٩٥٦ء، بیگمات اودھ، ٣٣ )
٤ - غضب، قہر، مصیبت، بلائے آسمانی۔
"کسی کے معشوق کو ستاؤں گا تو اللہ تعالٰی میرے معشوق پر بھی بدعتیں نازل کرے گا۔"      ( ١٩٢٤ء، بزم اکبری، ١٤:١ )
  • novelty or innovation in religion
  • schism
  • heresy;  wrong-doing
  • wrong
  • violence
  • oppression
  • outrage;  strife
  • contention
  • quarrel