برہم

( بَرْہَم )
{ بَر + ہَم }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے۔ ١٦٤٩ء میں 'خاورنامہ' میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : بَرْہَموں [بَر + ہَموں (و مجہول)]
١ - پریشان، آشفتہ، منتشر۔
 ابھی برہم ہوئی بزم تمنا یہ کہتی ہے اداسی دل کے گھر کی    ( ١٩٤٠ء، بیخود (محمد احمد)، کلیات، ٦١ )
٢ - الٹ پلٹ، تہہ و بالا، بے ترتیب۔
 خرام ناز نے کس کے جہاں کو کر دیا برہم زمیں گرتی فلک پر ہے فلک گرتا زمیں پر ہے    ( ١٨٥١ء، مومن، دیوان، ٢٠٨ )
٣ - خفا، ناراض، مشتعل، غضبناک۔
 اے نالہ ہاے نیم شبی شرمسار ہوں برہم مزاج یار کیا تم نے کیا کیا      ( ١٩٣٦ء، شعاع مہر، ٧ )
  • confused jumbled together
  • turned upside down or topsy-turvy
  • entangled;  spoiled;  offended
  • angry
  • vexed
  • enraged
  • sullen