برقع

( بُرْقَع )
{ بُر + قَع }
( عربی )

تفصیلات


برق  بُرْقَع

اصلاً عربی زبان کا لفظ ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٩١ء میں 'رسالۂ وجودیہ' میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : بُرْقَعے [بُر + قَعے]
جمع   : بُرْقَعے [بُر + قَعے]
جمع غیر ندائی   : بُرقَعوں [بُر + قَعوں (واؤ مجہول)]
١ - نقاب، پردہ۔
'آہ اس قوم پر جو لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے مکر و پندار کے کالے سوت سے بنے ہوئے تقدس کے برقع کو اپنے منہ پر ڈالے۔"      ( ١٩٠١ء، حیات جاوید، ٢٠٣ )
٢ - ایک خاص وضع کا سلا ہوا لباس جسے پردہ نشیں عورتیں گھر سے باہر نکلتے وقت اوڑھتی ہیں۔
'وہ بھی برقع اوڑھ کے ساتھ ہو گئی۔"      ( ١٩٢٤ء، اختری بیگم، ٢١٤ )
٣ - [ مجازا ]  لباس، روپ، بھیس، چولا۔
'وہ شجاعت جو یورپ میں زن مریدی کے برقع میں جلوہ افروز ہے ان میں تار عنکبوت سے زیادہ نہ تھی۔"      ( ١٩١٥ء، سجاد حسین، کایا پلٹ، ٣٣ )
  • a thing with which a woman veils her face
  • having in it two holes for the eyes