تباہ

( تَباہ )
{ تَباہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم صفت ہے۔ اردو میں اپنے اصل مفہوم و صورت کے ساتھ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦١١ء میں "دیوان قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - خراب، ویران، برباد، اجاڑ۔
"باقی جس قدر تھے تباہ و تاراج ہو گئے۔"      ( ١٩٣٤ء، قرآنی قصے، خیری ١٠٤ )
٢ - شکستہ، خستہ حال۔
 اٹھے نہ غیر کے پہلو سے آپ کیا جانیں کسی غریب خراب و تباہ کی گردش      ( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ١٠٨ )
٣ - غرقاب، غرق شدہ، ڈوبا ہوا۔
 نکالا چاہتا ہے بحر سے کشتی تباہوں کی خدا کی شان ہم بھی آرزوے ناخدا نکلے      ( ١٨٩٥ء، زکی، دیوان، ١٤٥ )
٤ - ضائع، رائیگاں۔
 دانتوں سے پکڑی مشک کہ محنت نہ ہو تباہ مشکیزے پر بھی تیر لگا وا مصیبتاہ      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٢٠٩:١ )
٥ - فاسد، نادرست۔
 کیونکہ تو کرتا تھا پہلے سجدہ آہ ہو گئی تیری نماز اس سے تباہ      ( ١٨١٤ء، حکایات رنگین، ٢٩ )