بھید

( بھید )
{ بھید (یائے مجہول) }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے۔ ١٦١١ء میں قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : بھیدوں [بھے + دوں (واؤ مجہول)]
١ - راز، چھپی ہوئی بات۔
 یہ پسینہ وہی آنسو ہیں جو پی جاتے تھے تم آرزو لو وہ کھلا بھید وہ پھوٹا پانی      ( ١٩٣٨ء، سریلی بانسری، ٩٠ )
٢ - سراغ، پتہ۔
 گئی کچھ آسمان سے اور آگے لگایا بھید یہ آہ رسا نے      ( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ١٧٩ )
٣ - [ مجازا ]  نازک اور ناقابل فہم بات، نکتہ، لطیفہ۔
 جھروکا نہ کھڑکی نہ در ہے نہ چھید عجب تیری قدرت عجب تیرے بھید      ( ١٩١٢ء، کلیات اسماعیل، ٢ )
٤ - حقیقت حال، اصلی کیفیت۔
 کھلا بھید ہم کو نہ اس بات کا کہ ہے یہ تماشا طلسمات کا    ( ١٩١٢ء، کلیات اسماعیل، ١٢ )
٥ - سبب، بنا۔
 ذات پات کا بھید مٹے گا اونچ نیچ کا بھید مٹے گا    ( ١٩٥٩ء، گل نغمہ، فراق، ٣٠٠ )
٦ - [ مجازا ]  پہیلی، مسئلہ، بوجھ۔ (جامع اللغات، 575:1)