تنہائی

( تَنْہائی )
{ تَن + ہا + ئی }
( فارسی )

تفصیلات


تَنْہا  تَنْہائی

فارسی زبان سے اسم صفت 'تنہا' کے ساتھ فارسی قاعدے کے مطابق 'ئی' بطور لاحقۂ کیفیت لگایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : تَنْہائِیاں [تَن + ہا + اِیاں]
جمع غیر ندائی   : تَنْہائِیوں [تَن + ہا + اِیوں (و مجہول)]
١ - اکیلاپن، تنہا ہونا۔
"آپ کی تنہائی بے دست وہائی پر خوف خدا ہوا کہ ایسا غم خوار آپ سے جدا ہوا۔"      ( ١٨٦٢ء، شبستان سرور، ١٦٧:٢ )
٢ - مفارقت، جدائی۔
 تمے گئے پر تنہائی سوں میں روں اسی تھے یک ارداش تم سوں کروں      ( ١٦٠٩ء، ضمیمہ قطب مشتری، ٢٤ )
٣ - خلوت، علیحدگی، اکیلے رہنا۔
"رات کی تنہائی میں جب دنیا نیند کا لطف اٹھاتی حضرت یعقوب کا دل بیٹے کی یاد میں تڑپتا۔"      ( ١٩٣٤ء، قرآنی قصے، ٧١ )
٤ - قید تنہائی، قید کی سزا کی ایک شدید قسم جس میں مجرم کو اور قیدیوں سے الگ رکھتے ہیں۔"
"پڑا رہنے دو بدمعاش کو یہیں، کل سے اسے کھڑی بیڑی دوں گا اور تنہائی بھی، اگر تب بھی سیدھا نہ ہوا تو الٹی دی جائے گی۔"      ( ١٩٣٢ء، میدان عمل، ٤٢٨ )