آشنائی

( آشْنائی )
{ آش + نا + ای }
( فارسی )

تفصیلات


آشنا  آشْنا  آشْنائی

فارسی زبان سے ماخوذ اسم صفت 'آشنا' کے ساتھ 'ء' بطور لاحقۂ اتصال لگنے کے بعد 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگنے سے 'آشنائی' بنا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٠٠ء میں "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : آشْنائِیاں [آش + نا + اِیاں]
جمع غیر ندائی   : آشْنائِیوں [آش + نا + اِیوں (و مجہول)]
١ - دوستی، چاہ، محبت۔
"ہندوستانی کیا ہندو کیا مسلمان اکثر خوش پوشاک . چلن کے اچھے آشنائی کے پکے . ہوتے ہیں۔"      ( ١٨٠٥ء، آرائش محفل، افسوس، ٥٣ )
٢ - جان پہچان، ربط ضبط، معرفت
 حباب آسا میں دم بھرتا ہوں اس کی آشنائی کا نہایت غم ہے اس قطرے کو دریا کی جدائی کا      ( ١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ٣ )
٣ - انس، مانوسیت۔
"کوئی تکلف کر کے بعضے لفظ کا ترجمہ کچھ لکھے بھی تو . کانوں کو اس سے آشنائی نہیں۔"      ( ١٨٦٣ء، انشائے بہار بیخزاں، ٢٣ )
٤ - (کسی بات سے) واقفیّت، آگاہی۔
"فارسی سے آشنائی حاصل کرنے کے بعد . عربی صرف و نحو شروع کی۔"      ( ١٩٤٦ء، شیرانی، مقالات، ١٩٦ )
٥ - مرد عورت کا ناجائز تعلق۔
"اس کے دشمنوں پر کیا ایسی بنی تھی کہ وہ غیر مردوں کے پاس آشنائی کرنے کو دوڑی جاتی۔"      ( ١٩٢٤ء، اختری بیگم، ٢٧٢ )
٦ - شناوری یا پیراکی۔
 شناوران محبت تو سیکڑوں ہیں مگر جو ڈوب جائے وہ پورا ہے آشنائی کا      ( ١٨٧٢ء، مرآۃ الغیب، ٨٢ )
٧ - [ تصوف ]  تعلق رب کا مربوب کے ساتھ کلیۃً اور جزئیۃً جیسے تعلق خالق کا مخلوق کے ساتھ۔ (مصباح التعرف لارباب التصوف، 36)
  • Acquaintance
  • friendship
  • intimacy;  connection
  • relationship;  connection by marriage;  illicit love
  • carnal intercourse