حاضری

( حاضِری )
{ حا + ضِری }
( عربی )

تفصیلات


حضر  حاضِری

عربی زبان سے ماخوذ اسم 'حاضر' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے 'حاضری' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٩٢١ء کو اکبر کے "کلیات" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : حاضِرِیاں [حا + ضِرِیاں]
جمع غیر ندائی   : حاضِرِیوں [حا + ضِرِیوں (واؤ مجہول)]
١ - حاضر ہونے کا عمل یا کیفیت، موجودگی، پیشی۔
"یہ اس کے دفتر میں میری آخری حاضری تھی"      ( ١٩٨٢ء، میرے لوگ زندہ رہیں گے، ٨٦ )
٢ - وہ کھانا جو دن میں پہلی مرتبہ کھایا جائے، ناشتا۔
"ایسا بے فکر آدمی میں نے نہیں دیکھا نہ حاضری کا خیال نہ ڈنر کا"      ( ١٩٣٦ء، پریم چند، پریم چالیسی، ٢٣:٢ )
٣ - وہ کھانا جو بعد دفن میت مرنے والے کے گھر بھیجا جاتا ہے۔
"غمی میں حاضری، پھول، دسواں بیسواں وغیرہ یہ سب کچھ اس کے ہاں ہوتا ہے"      ( ١٩٢٣ء، احیاء ملت، ٥٤ )
٤ - وہ نقد روپیہ جو میت والے کو دیا جائے۔ (فرہنگ آصفیہ)
٥ - حضرت عباس یا شہدائے کربلا کی نذر کا کھانا جو عموماً محرم کی آٹھویں کو کھلایا جاتا ہے۔
غفران منزل میں محرم بڑے زور و شور سے منایا جاتا تھا اور ساتویں تاریخ کی مہندی آٹھویں کی حاضری.کرتی تھی"      ( ١٩٥٢ء، میرے بھی صنم خانے، ٣٧٢ )
  • presence
  • attendance
  • appearance (in a court);  levee
  • audience;  an offering of food to a saint or to a departed spirit;  a funeral feast (sent to the household of the deceased);  breakfast (of Europeans)