پھیرا

( پھیرا )
{ پھے + را }
( ہندی )

تفصیلات


پھیر  پھیرا

ہندی سے ماخوذ اسم 'پھیر' کے ساتھ لاحہ تذکیر 'ا' ملنے سے 'پھیرا' بنا۔ بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٥٦٥ء کو "جواہراسراراللہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : پھیرے [پھے + رے]
جمع   : پھیرے [پھے + رے]
جمع غیر ندائی   : پھیروں [پھے + روں (و مجہول)]
١ - گشت، دورہ، (آمد و رفت کا) چکر۔
 ہزار ہی طریقوں سے ہم انگریزوں کو گھیرے ہیں طواف ان کے گھروں کا ہے انھیں سڑکوں کے پھیرے ہیں    ( ١٩٢١ء، اکبر، گاندھی نامہ، ٤٠ )
٢ - فقیروں کی پھیری (بھیک مانگنے کے لیے)، (مجازاً) نہایت مختصر مدت کا قیام۔
 کبھی تھی اس طرف جھانکی کبھی تھا اس طرف پھیرا جو کوئی پوچھتا تھا کیوں میاں کیا حال ہے تیرا    ( ١٨٣٠ء، نظیر، کلیات، ٦٢:٢ )
٣ - گزر، لوٹ کر آنے کا عمل۔
 اے میری جوانی میں ہوا شیدا تیرا پھر ہو کہیں ایک بار پھیرا تیرا    ( ١٨٨٩ء، صغیر، میلاد معصومین، ٢ )
٤ - حلقہ، دائرہ، احاطہ، گھیرا۔ (جامع اللغات)
٥ - لپیٹ، بل۔
"خاص مقام کسر پر تین چار پھیرے دیتے جائیں۔"      ( ١٩٤٧ء، جراحیات زہراوی، ٢١١ )
٦ - طواف کے لیے لگایا ہوا چکر۔
"ان دونوں کے درمیان طواف کے پھیرے کرنے میں کچھ گناہ نہیں۔"      ( ١٨٩٥ء، ترجمۂ قرآن مجید، نذیر احمد، ٣٦ )
٧ - [ ہندو ]  شادی کے موقع پر ایک دوسرے کا پلو باندھ کر آگ کے گرد چکر لگانے کا عمل۔
"جب کروڑی مل پھیروں کے واسطے آیا تو اول اِسے شطرنجی پر بٹھایا۔"      ( ١٨٦٨ء، رسومِ ہند، ١٥١ )
٨ - آسیب کا اثر (جامع اللغات)۔
٩ - (بچوں کا) تیسرے پہر کا ناشتہ۔ (جامع اللغات؛ نوراللغات)
١٠ - [ شکار ]  (شکار) شکار کی غرض سے جانوروں کو گھیر گھار کر لانا، ہانکا۔
 ملا ہے آنکھ کا بوسہ پھرے جو گرد ان کے ہرن شکار کیا آج ہم نے پھیرے سے      ( ١٨٧٢ء، عاشق (نوراللغات)۔ )
١١ - چونا ناپنے کا پیمانہ، لکڑی کا چوکھٹا جس سے چونا وغیرہ ناپتے ہیں۔ (جامع اللغات)
  • visit;  call;  pilgrimage;  perambulation;  circumambulation (round bride or beggar