شاذ

( شاذ )
{ شاذ }
( عربی )

تفصیلات


عربی سے اردو میں داخل ہوا۔ بطور متعلق فعل نیز بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٤٦ء کو "دیوانِ مہر" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - وہ لفظ جو خلافِ پیاس ہونے کے علوہ قواعد کلیہ کے مطابق اور قوانین مقررہ کے موافق نہ ہو۔
"خلافِ فطرت شاذ ہے اور فطرتِ اکثر چھوڑ کر میں شاذ کا سہارا کیوں ڈھونڈوں۔"      ( ١٩٠٧ء، اجتہاد، ٨٩ )
٢ - انوکھا، عجیب، تعجب انگیز۔
 جان کر اوس غذا کو کھائے وہ شاذ ہے یہ کہ مر نہ جائے وہ      ( ١٨٧٣ء، کلیاتِ قدر، ٨٨ )
٣ - مختصر، کم۔
"اردو سندھی کے جو اثرات قبول کر رہی ہے اس کی مثالیں اگرچہ ابھی شاذ ہیں۔"      ( ١٩٧٠ء، اردو سندھی روابط، ٩٩ )
٤ - معدوم، ناپید، نایاب۔
"ردیف بازی کا شوق جو بہت ہی شاذ ہے . اس اثر سے کمال کو شعوری طور پر گریز کرنا ہے۔"      ( ١٩٧٠ء، برش قلم، ١٢١ )
٥ - [ فقہ ]  وہ روایت جس میں ثقہ راوی اپنے سے قوی تر راوی کی مخالفت کرتا ہے۔
 اس کے خلاف کچھ جو کہیں وہ شاذ ہے یا جبر یا وہ مصلحتوں کا نفاذ ہے      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٤١٨:٣ )
متعلق فعل
١ - کم کم، کمی کے ساتھ، بہت کم، اتفاقیہ۔
"بانگِ درا میں ایک نظم جس کا ذکر شاذ ہی کیا گیا ہے 'ارتقا' کے عنوان سے ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، مطالعہ اقبال کے چند پہلو، ٤٩ )
  • rarely
  • seldom