زریں

( زَرِّیں )
{ زَر + رِیں }

تفصیلات


فارسی  زَرِّیں

فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'زر' کے ساتھ 'یں' بطور 'لاحقۂ نسبت' لگانے سے زریں بنا۔ اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٨٨٤ء کو مرزا انیس کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - سونے سے منسوب، طلائی، سونے کا، ملمع چڑھا ہوا۔
"فتح مکہ میں جو تلوار آپ کے ہاتھ میں تھی اس کا قبضہ زریں تھا۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ١٩٠:٢ )
٢ - سنہرا، سونے کی طرح چمکدار۔
"مزاروں اور زریں چادروں کے ساتھ پھولوں کی چادریں نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ چڑھاتی ہیں۔"      ( ١٩٨٤ء، سندھ اور نگاہِ قدر شناس، ١٥ )
٣ - وہ چیز جس پر سلمے ستارے کا کام یا سنہری کام ہو، زرکار۔
"اندر کے خیمہ میں تخت شاہی بچھا تھا اور اس پر مسند تکیہ زریں لگایا ہوا تھا۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٤٨٠:٥ )
٤ - بیش قیمت، عمدہ، درخشاں۔
"ٹیپوسلطان کا خیال آتے ہی ذہن تاریخ کے زریں صفحات الٹنے لگتا ہے۔"      ( ١٩٨٢ء، مری زندگی فسانہ، ١١٣ )