جام[1]

( جام[1] )
{ جام }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦١١ء میں "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : جاموں [جا + موں (واؤ مجہول)]
١ - گلاس، پانی پینے کا برتن۔
"نوکروں پر حکم کیا ایک آدمی کی خوراک کھانا اور ایک جام پانی دیا کرو۔"      ( ١٨٢٤ء، سیرعشرت، ٧٢ )
٢ - [ مجازا ]  شراب کا پیالا، ساغر، پیالہ، ایاغ۔
 رکھا ساقی نے شیشہ ساں گریاں کبھی خنداں نہ شکل جام کیا      ( ١٩٠٣ء، نظم نگاریں، ٤٧ )
٣ - [ تصوف ]  باطن عارف، حقیقت جامعہ۔
"خدات کی ذات میں مل جانے کو جام کہتے ہیں۔"      ( ١٨٦٨ء، کشاف اسرار المشائخ، ١٥ )
٤ - آئینہ۔ (جامع اللغات)
١ - جام ڈھلنا
پیالے کا لبالب بھرا جانا؛ پیالے کا جھکنا یا مائل ہونا۔ آج ساقی کا فیض جاری ہے مے چھلکتی ہے جام ڈھلتا ہے      ( ١٨٧٨ء، آغا، دیوان، ١٣٩ )
٢ - جام سر نِگوں ہونا
ساغر کا الٹا ہونا، ساغر کا خالی ہونا، دور شراب ختم ہو جانا۔ رندوں کا حال ہے زبوں جام پڑے ہیں سرنگوں کر دے زباں سے اپنی ہوں تیرے نثار ساقیا      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، بادہ عرفان، ٧٣ )
٣ - جام شہادت پینا
شہادت کا مرتبہ پانا، شہید ہو جانا۔"صرف اتنی آرزو تھی کہ تندرست ہو کر میدان جنگ میں پہنچوں اور کلمہ شہادت پڑھتی ہوئی جام شہادت پی لوں۔"      ( ١٩١٢ء، شہید مغرب، ٤٠ )
٤ - جام لبریز ہونا
کسی چیز کا انتہا تک پہنچنا یا حد سے بڑھ جانا۔ پیری میں روءوں کونسے عضو بدن کو میں دل مر چکا ہے آنکھوں کا لبریز جام ہے      ( ١٨٩٥ء، خزینۂ خیال، ٢٨٠ )
موت کا وقت قریب آنا، موت آ جانا۔ مے سے تلوار اپنی بجھوائی ہے اس سفاک نے دیکھیے لبریز کس کس بے گنہ کا جام ہو      ( ١٨٤٦ء، آتش، (نور اللغات) )
٥ - جام لینا
شراب پینا، شراب پینے کے لیے جام لینا۔ ہو ترک ساغر مے اس بہار میں کیونکر کہ شاخ گل نے ہر اک سو چمن میں جام لیا      ( ١٧٩٥ء، قائم، دیوان، ١٨ )
٦ - جام بھرنا
گلاس پانی یا شراب وغیرہ سے لبریز کرنا۔"شا چین کی بوتل کھولی گئی ہے، دونوں کو جام بھر گئے ہیں۔"      ( ١٩٢٤ء، خوانی راز، ٢٤ )
انتہا ہو جانا، حد سے گزر جانا؛ (زندگی کے ساتھ) موت کا وقت آنا۔ نہ ٹھہرے گی یہ جام بھرنے کے بعد کوئی خیر کیا ہوگی مرنے کے بعد      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام، کلام بے نظیر، ٣٥٨ )
٧ - جام پلانا
شراب کا پیالہ بھر کر پینے کے لیے دینا۔ پلا دے آ کے دو دو جام ساقی کہ ہو رندوں میں تیرا نام ساقی      ( ١٩٠١ء، الف لیلہ، سرشار، ١ )
٨ - جام پینا
جام میں پانی یا شراب وغیرہ پینا، شراب پینا۔ عہد سلف سے جاری فیض عام تیرا مست مئے حقیقت پیتے ہیں جام تیرا      ( ١٩٢٩ء، مطلع اتوار، ٢٩ )
کسی کی صحت و سلامتی کے لیے جام اٹھا کر شراب وغیرہ پینا۔"گلاس ہاتھ میں لے کر لیلٰی اور شیریں کی صحت کا جام پیا۔"      ( ١٨٨٧ء، جام سرشام، ٣٨ )
٩ - جام چڑھانا
شراب پینا، قدح نوشی کرنا، شراب پلانا۔ کیفیت انکھڑیوں کی دکھاءو چڑھاءو جام ہی لہ شراب طاق سے شیشہ اوتار کے      ( ١٨٤٦ء، دیوان مہر، ٢٧٠ )
١٠ - جام چلنا
شراب پینے والوں کا باری باری سے شراب پینا، دو شراب چلنا، مے نوشی ہونا۔ ضرور چاہیے شغل شراب محفل میں جو دم بہ دم نہ چلے جام گاہ گاہ چلے      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢٢٠ )
١١ - جام چننا
شراب کے پیالوں کو ترتیب دینا۔"صراحیاں اور جام چنے گئے۔"      ( ١٩٤٥ء، الف لیلہ و لیلہ، ٦٤:٦ )
١٢ - جام چھلکنا
پیالہ کا لبا لب بھرا ہونا۔ یہاں تک کی ہے میں نے احتیاط آشامی لرز جاتا ہے دل چھلکا ہوا جب جام آتا ہے      ( ١٩١٤ء، گلکدہ عزیز، ١٢٧ )