اسم حاصل مصدر ( مؤنث - واحد )
١ - آنے کا عمل، آنے کی خبر، تشریف آوری، ورود۔
"بیس دن تک دشمنوں کی آمد کا انتظار کرتے رہے۔"
( ١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ١٠:٤ )
٢ - میدان جنگ میں آنے کی شان یا دبدبہ وغیرہ۔
کس شیر کی آمد سے جہاں زیرو زبر ہے روے فلک پیر پہ سورج کی سپر ہے
( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ، ١ )
٣ - آنے کے آثار۔
آمد نہیں کسی کی تو کیوں جاگتے ہو بحر رہتا ہے شب کو کوئی بھی بیدار بے سبب
( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٧٠ )
٤ - نمود، نکلنا، ظاہر ہونا۔
آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست دود شمع کشتہ تھا شاید خط رخسار دوست
( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٦٤ )
٥ - مداخل، آمدنی۔
"قدرت نے مجھ کو سبق دیا کہ کیوں محنت نہ کی اور مفت کی آمد کا خیال کیا۔"
( ١٩١٩ء، آپ بیتی، حسن نظامی، ٦٤ )
٦ - یافت، وصول یابی۔
"شوہر کے مرنے کے بعد تو روپیے کی آمد بند ہو گئی۔"
( ١٩٢٤ء، 'اودھ پنچ، لکھنؤ، ٣٧:٩، ٦ )
٧ - وہ اشعار جو ناٹک کے کسی اہم کردار کے اسٹیج پر آنے سے پہلے گائے جاتے ہیں۔
"جب آمد گائی جا چکتی ہے، پردہ اٹھتا ہے۔"
( ١٨٥٣ء، اندرسبھا، امانت، (مع شرح)، ٨٤ )
٨ - خیالات اور مضامین کے لگاتار اور پے در پے پیدا اور ادا ہونے کی کیفیت۔
"الفاظ کی نشست، زبان کی خوبی، مضمون کی آمد اور سب سے زیادہ پڑھنے والے کے گلے نے ایک سماں باندھ دیا۔"
( ١٩٢٨ء، آخری شمع، ٣٥ )
٩ - ادائے مضمون میں بے ساختگی، بے تکلفی، آورد کی ضد۔
"لاکھ قلم کو دوات میں ڈبوتے ہیں، رہ رہ کر سر کھجاتے ہیں، مگر نہ آمد کام دیتی ہے نہ آورد۔"
( ١٩٥٣ء، ظفر علی خان، ایڈیٹر کا حشر، ١٣ )
١٠ - پیداوار کا بازار میں کثرت سے لایا جانا (خصوصاً رسد اور اجناس)، قلت کی ضد۔
"آج کے بازار میں کرانے کی بڑی آمد ہوئی یا غلے کی بڑی آمد ہے۔"
( ١٨٩١ء، امیرالغات، ١٧٤:١ )
١١ - گنجفے پچیسی چوسر اور تاش میں زیادہ بازی اور پو گرنے کی صورت حال۔
"اللہ ری آمد ہرجم میں میر وزیر اٹھتے ہیں، پو کی آمد جو شروع ہوئی تو چار ہی ہاتھوں میں چاروں گوٹیں لال تھیں۔"
( ١٨٩١ء، امیراللغات، ١٧٤:١ )