زد

( زَد )
{ زَد }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم اور گا ہے اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٨٤٦ء کو "سرور سلطانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - بطور لاحقہ مستعمل۔
 ایسی ہی اپنی صدائے آہِ آتش ناک گرم گوش زد ہوتی ہے جل جاتا ہے پردا کان میں      ( ١٨٦١ء، سراپا سخن، ١٥٠ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : زَدوں [زَدوں (واؤ مجہول)]
١ - ضرب، وار۔
"اس لحاظ سے یہ طفیلیئے ہیں، ان کی زد سے کوئی جاندار نہیں بچ سکتا"      ( ١٩٨٥ء، حیاتیات، ٨٤ )
٢ - وار یا ضرب کا محل، ہدف یا نشانے کی رسائی کی حدود، سامنے کی وہ جگہ جہاں کسی وار یا ضرب کا اثر پہنچ سکے۔
"وہ جگہ تجاوزات کی زد میں آگئی"      ( ١٩٨٣ء، زمیں اور فلک اور، ١١٥ )
٣ - ضرر، خسارہ۔
"کچھ نیک و بد ہوا اچھے گا تو، کام زد ہوا اچھے گا تو"      ( ١٦٣٥ء، سب رس، ٢٥٩ )
٤ - گڑنے، چبھنے یا اثر کرنے کی صلاحیت۔
 اب نہ مژگاں میں وہ زد ہے نہ نگاہوں میں وہ توڑ ترکش حسن میں اوس کے نہ رہا تیر کوئی      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢٧٥ )