شرارت

( شَرارَت )
{ شَرا + رَت }
( عربی )

تفصیلات


سرر  شَرارَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٧٣٢ء کو "کربل کتھا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : شَرارَتیں [شَرا + رَتیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : شَرارَتوں [شَرا + رَتوں (و مجہول)]
١ - بدی، بدنیتی؛ ایذا رسانی؛ برائی۔
 کوتہ نظر ان پست فطرت سہ گرمِ شرارت و عداوت      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٢٨٢:١ )
٢ - سرکشی، فتنہ، فساد۔
"آرمینا والوں نے بغاوت اور شرارت کی"      ( ١٨٩٨ء، سرسید، مضامین، ٣٤ )
٣ - شوخی، چلبلاپن، بیباکی، کوئی ایسی حرکت کرنا جس کا مقصد محض چھیڑنا یا پریشان کرنا ہو۔
 یہ شرارت ترے گیسو کی ہے میں جانتا ہوں آنہ سکتی تھیں بلائیں مرے گھر آپ سے آپ      ( ١٩٨٣ء، سرمایۂ تضزل، ٥٢ )
١ - شَرارَت کرنا
شوخی کرنا۔ عشوءوں کو چین ہی نہیں آفت کیے بغیر تم اور مان جاءو شرارت کیے بغیر      ( ١٩٨٢ء، جوش (مہذب اللغات) )
  • wickedness
  • mischief
  • vice