فتنہ

( فِتْنَہ )
{ فِت + نَہ }
( عربی )

تفصیلات


فتن  فِتْنَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق کلمہ ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی اور ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیاتِ قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : فِتْنے [فِت + نے]
جمع   : فِتنے [فِت + نے]
جمع غیر ندائی   : فِتْنوں [فِت + نوں (و مجہول)]
١ - آشوب، بلا، شر، سختی۔
"دولت فتنہ بن جاتی ہے"      ( ١٩٨٥ء، طوبٰی، ٥٤٦ )
٢ - جھگڑا، ہڑبونگ، فساد، ہنگامہ۔
"اسلام فساد اور فتنہ کو برداشت نہیں کر سکتا"      ( ١٩٨٥ء، طوبٰی ١٠٨ )
٣ - بغاوت، سرکشی، فتور۔
 حد سے جو بڑھ گیا تھا وہ فتنہ فرو کیا نیزے کو ایک وار میں حضرت نے دو کیا      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، مراثی، ٦٦:٢ )
٤ - گمراہی، کفر
"لڑو ان سے یہاں تک کہ نہ رہے فتنہ، اور دین بالکل اللّٰہ کے لیے ہو"      ( ١٨٩٨ء، سرسید احمد خان، تفسیر القرآن، ٢٩:٤ )
٥ - مال و اولاد (نوراللغات)
٦ - عذاب و شر
"زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ مانگتا ہوں."      ( ١٩٠٦ء الحقوق و الفرائض، ٨٨:١ )
٧ - فِسق و فجور۔
"دھارا کا فتنہ گاؤں کے اندر پلتا رہا"      ( ١٩٨٦ء، انصاف، ٢١ )
٨ - دیوانگی
 بھر دی تھی چٹانوں میں بھی غنچوں کی سی نرمی اک فتنہ کونین کی نازک بدنی نے      ( ١٩٣٣، سیف و سبُو، ٨٦ )
٩ - مراد: محبوب، معشوق
 کیا خبر آشوبِ محشر کی مگر دل لوٹ ہے اک نیا فتنہ ترے قد کے برابر دیکھ کر      ( ١٩١٩ء، کلیاتِ رعب، ٧٩ )
١٠ - جاڑوں میں غسل کے بعد جلد پر ملنے کا ایک قسم کا روغنی مسالہ جو جلد کو نرم رکھے۔ (اصلاحات پیشہ وراں)
١١ - ایک عطر کا نام، عطرفتنہ۔
"کنٹروں میں عطرسہاگ، مہک پری، ایجاد نصیرالدین حیدر، ارگجہ محمدشاہی فتنے کی بُو چار سُو زعفران کا سا تختہ کھلا"      ( ١٨٢٤ء، فسانہ عجائب، ٨٦ )
  • calamity
  • mischief;  sedition
  • mutiny
  • perfidy;  sin
  • evil
  • pest;  temptation
  • seduction