اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - آشوب، بلا، شر، سختی۔
"دولت فتنہ بن جاتی ہے"
( ١٩٨٥ء، طوبٰی، ٥٤٦ )
٢ - جھگڑا، ہڑبونگ، فساد، ہنگامہ۔
"اسلام فساد اور فتنہ کو برداشت نہیں کر سکتا"
( ١٩٨٥ء، طوبٰی ١٠٨ )
٣ - بغاوت، سرکشی، فتور۔
حد سے جو بڑھ گیا تھا وہ فتنہ فرو کیا نیزے کو ایک وار میں حضرت نے دو کیا
( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، مراثی، ٦٦:٢ )
٤ - گمراہی، کفر
"لڑو ان سے یہاں تک کہ نہ رہے فتنہ، اور دین بالکل اللّٰہ کے لیے ہو"
( ١٨٩٨ء، سرسید احمد خان، تفسیر القرآن، ٢٩:٤ )
٥ - مال و اولاد (نوراللغات)
٦ - عذاب و شر
"زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ مانگتا ہوں."
( ١٩٠٦ء الحقوق و الفرائض، ٨٨:١ )
٧ - فِسق و فجور۔
"دھارا کا فتنہ گاؤں کے اندر پلتا رہا"
( ١٩٨٦ء، انصاف، ٢١ )
٨ - دیوانگی
بھر دی تھی چٹانوں میں بھی غنچوں کی سی نرمی اک فتنہ کونین کی نازک بدنی نے
( ١٩٣٣، سیف و سبُو، ٨٦ )
٩ - مراد: محبوب، معشوق
کیا خبر آشوبِ محشر کی مگر دل لوٹ ہے اک نیا فتنہ ترے قد کے برابر دیکھ کر
( ١٩١٩ء، کلیاتِ رعب، ٧٩ )
١٠ - جاڑوں میں غسل کے بعد جلد پر ملنے کا ایک قسم کا روغنی مسالہ جو جلد کو نرم رکھے۔ (اصلاحات پیشہ وراں)
١١ - ایک عطر کا نام، عطرفتنہ۔
"کنٹروں میں عطرسہاگ، مہک پری، ایجاد نصیرالدین حیدر، ارگجہ محمدشاہی فتنے کی بُو چار سُو زعفران کا سا تختہ کھلا"
( ١٨٢٤ء، فسانہ عجائب، ٨٦ )