جبار

( جَبّار )
{ جَب + بار }
( عربی )

تفصیلات


جبر  جَبْر  جَبّار

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم مبالغہ ہے۔ اردو میں اصلی حالت اور معنی میں ہی عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٠٩ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : جَبّاروں [جَب + با + روں (واؤ مجہول)]
١ - قوت و شوکت کا مالک، زورآور، قوی، قاہر۔
"بڑے بڑے جبار اس کے آگے سجدے میں گر پڑتے ہیں۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ٣٣٤:٢ )
٢ - سرکش، باغی، زورآور، زبردستی کرنے والا۔
"خدا نے مجھے خاکسار بندہ بنایا ہے، جبار اور سرکش نہیں بنایا ہے۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ٣٣٤:٢ )
٣ - [ ہیئت ]  برج جوزا۔
"جبار کے سب سے بڑے ستارے ابط الجوزا کے فوٹو گراف میں جھالریں پائی گئیں۔"      ( ١٩٣٩ء، طبیعی مناظر، ٢٦٣ )
٤ - [ بطور معرفہ ]  اللہ تعالٰی کے اسمائے صفات میں سے ایک نام۔
 توں ستار ہور توں سو جبار ہے توں وہاب ہور توں سو قہار ہے      ( ١٦٠٩ء، قطب مشتری، ١ )
٥ - اونچے قد کا آدمی۔
"زبان عرب میں جبار کے معنی مرد بلند بالا . کے ہیں۔"      ( ١٩٠٧ء، فلاحۃ النخل، ٥٦ )
٦ - اونچا درخت جس پر ہاتھ نہ جا سکے، درخت خرما۔
"عربوں نے جبار یا جبارہ اس درخت خرما کو کہا ہے جس پر چڑھنے کی ضرورت واقع ہو یا بغیر کسی سیڑھی کے اس کے خوشوں تک ہاتھ نہ پہنچ سکے۔"      ( ١٩٠٧ء، فلاحۃ النخل، ٥٦ )