اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - درز، شگاف، رخنہ۔
"بجلی گرنے سے عمارت میں خلل آگیا تو اس نے بڑھا اسے زیادہ بلند کر دیا"
( ١٩٥٩ء، برنی (سید حسن)، مقالات،١١٣ )
٢ - خرابی، بگاڑ، فتور، ابتری، انتشار۔
"اس تھیوری کے مطابق دوسرے میڈیم میں خلل ہر جگہ صفر نہیں ہوتا"
( ١٩٧٢ء، تاب کاری، ١٢٤ )
٣ - غلطی، عیب، خامی، نقص۔
نتیجہ سمجھتے اے تسلیم عمر بد حواسی کا اگر میری غزل میں نکتہ چیں کوئی خلل دیکھے
( ١٩٠٧ء، دفتر خیال، ١٦١ )
٤ - ہضم کی خرابی، یپٹ کا بگاڑ، بد ہضمی۔ (فرہنگِ آصفیہ؛ جامع اللغات)
٥ - [ عورات ] جن پری کا سایہ یا آسیب کا اثر؛ جادو ٹونے کا اثر۔
"بچے کو پلنگ پر چالیس دن تک نہیں سلاتے اس لیے کہ آسیب کا خلل نہ ہو جائے"
( ١٩٦٤ء، نور مشرق، ١٢٨ )
٦ - دکھ، روگ، بیماری، عارضہ۔
"بے شک وہ تپ دق کے مریض نہیں ہیں . البتہ اعصابی خلل کے بیمار ضرور ہیں"
( ١٩٧٠ء، جنگ، کراچی، ٢ فروری، ٩ )
٧ - شدبد، دخل۔
"پیدائشی امارت کی وجہ سے کچھ عمارت میں بھی خلل رکھتا تھا"
( ١٩٢٦ء، اودھ پنچ، لکھنؤ،١١، ٧:٦ )
٨ - ظلم، ستم۔
میں عاشق بیدل ہوں ترا اے مرے جانی مت آنکھ چرا ہم سے، تو ایسا نہ خلل کر
( ١٨٣٠ء، نظیر، کلیات، ٢٧:١ )
٩ - منتر، فساد، ہنگامہ۔
"جب سزا والا سزا نہ پاوے اور دہشت کسو کے دل میں نہ رہے تو ملک میں ظلم بھی بہت ہوئے اور بادشاہی میں خلل بھی بڑا اٹھے"
( ١٧٤٦ء، قصہ مہرا فروز و دلبر، ٢٦١ )
١٠ - فکر، اندیشہ، ڈر، وہم۔
ہر چمن میں یہ ترے عدل کا بیٹھا ہے عمل گل کو گلچیں سے نہ صیاد سے بلبل کو خلل
( ١٩١٤ء، ریاض، شفق، ٢٤ )
١١ - فرق، کسر، کمی۔
"پتھر کے گرد چکر کھاتا ہوا پانی آگے بڑھتا ہے اسی طرح مستقل ہواؤں کی راہ میں مقامی طور پر غیر مستقل یا عارضی دباؤ نمودار ہو جانے سے ان کی روانی میں خلل آجاتا ہے"
( ١٩٧٥ء، معاشی و تجارتی جغرافیہ، ٧٤ )
١٢ - رکاوٹ، حرج۔
"ادب کی عمومی نشوونما رک جاتی ہے ذہنی یکسوئی میں خلل واقع ہوتا ہے"
( ١٩٧٧ء، سائیں احمد علی، ٩ )
١٣ - ضرر، نقصان۔
"مارے ڈر کے نہیں جاتے کہ کوئی انگریز نہ دیکھو لے اور نوکری میں خلل آئے"
( ١٩٢٨ء، پس پردہ، ٩٦ )
١٤ - سودا، جنون۔
اوس کا کُل پر خم کا خلل جائے تو اچھا دل سر سے بلا تیرے یہ ٹل جائے تو اچھا
( ١٨٤٠ء، نصیر دہلوی، چمنستان سخن، ٢٥ )