دراز

( دَراز )
{ دَراز }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں فارسی سے ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٩١ء کو "بوستان خیال" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - نیچے پہننے کا تنگ پاجامہ۔ (جامع اللغات)
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - طویل، لمبا (مدت گفتگو یا کوئی مادی شے۔ وغیرہ کے لیے)۔
 زخاک تابہ ثریا ہے اک سکوت دراز خلا میں آج بھی گم ہے زمین کی آواز      ( ١٩٥٧ء، نبض دوراں، ٢٥٤ )
٢ - طویل المسافت، دور (دور کے تابع کے طور پر مستعمل)۔
"تمام قبائل دور و دراز مقامات سے آتے تھے"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ١١:٢ )
٣ - پھیلا ہوا۔ (جامع اللغات)
٤ - زیادہ، تفصیلی، (مختصر کی ضد)۔
 کیا گنج خفی کا راز بولوں کیا مختصر و دراز بولوں      ( ١٨٧٤ء، جامع المظاہر، ٧٧ )