شق

( شِقّ )
{ شِق }
( عربی )

تفصیلات


شقق  شِقّ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں بعینیہ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٩٠ء کو "بوستان خیال" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : شِقّیں [شِق + قیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : شِقّوں [شِق + قوں (و مجہول)]
١ - ٹکڑا، حصہ، جزو، شاخ۔
"اگر ہمارا رجحان تاریخ نگاری کی طرف ہے تو ہم اسی شق ادب کو اپنا حصہ بنا لیں۔"      ( ١٩٠٨ء، مخزن، اگست، ٢٥ )
٢ - کسی ریاست یا صوبے وغیرہ کا حصہ، ضلع یا تحصیل وغیرہ۔
"بادشاہ نے انتظام کے لیے دکن کی چار شقیں قرار دیں۔"      ( ١٩١٠ء، ادیب، اگست، ٧٩ )
٣ - سمت، طرف، جانب۔
"الف خاں کے مہمانوں نے دیکھا دولہا کی ایک شق کیچڑ میں لتھ پتھ اور دوسری طرف بھی دھبے لگے ہوئے ہیں۔"      ( ١٩٢٤ء، خلیل خاں فاختہ، ٥٣:١ )
٤ - قسم، صنف۔
"اردو شاعری کو موٹے طور پر ہم دوشقوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔"      ( ١٩٨٤ء، اصنافِ سخن اور شعری ہئتیں، ١١ )
٥ - نصف کسی چیز کا، اس قدر جتنا کہ جانور ایک ایک طرف بوجھ اٹھاتا ہے؛ پہاڑ کی ایک طرف؛ بھائی، دوست؛ مشکل، تکلیف، محنت، تھکاوٹ؛ فکر، ایک بلا جو نصف انسان کے برابر ہوتی ہے۔ (جامع اللغات؛ علمی اردو لغت؛ پلیٹس)۔
٦ - مقابل یا متبادل صورت، جواب۔
"آریوی زبان میں ہر ایک لفظ ایک ہی طرح پڑھا جا سکتا ہے اور اس کے تلفظ میں دوسری کوئی شق نہیں ہوتی۔"      ( ١٨٩٧ء، تمدنِ عرب، ٦١ )
٧ - پخ، جھگڑا، دِقَّت
"ہماری الفت کا ذکر سن کر عدونکالے بھی شق تو کیونکر کہ لفظ شق میں بھی تو یہ شق ہے کہ ہے یہ عاشق کا نام آدھا۔"      ( ١٩٠٥ء، دیوانِ انجم، ١٣ )
٨ - [ قانون ]  قانون میں دفعہ کا ایک حصہ۔
"کوئی ایسا قانون، اس کی کوئی دفعہ یا شق صدف اس وجہ سے کالعدم نہیں سمجھی جائے گی۔"      ( ١٩٧٣ء، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین، ٣٧ )
  • the half (of a thing);  the side (of a mountain);  the counter part (of a thing);  a brother;  a large division of a country;  kind
  • sort;  difficulty
  • hardship