سفارش

( سِفارِش )
{ سِفا + رِش }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی مصدر 'سپردن' سے حاصل مصدر 'سفارش' بنا بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٣٢ء کو "کربل کتھا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : سِفارِشیں [سِفا + رِشیں (ی مجہول)]
جمع استثنائی   : سِفارِشات [سِفا + رِشات]
جمع غیر ندائی   : سِفارِشوں [سِفا + رِشوں (و مجہول)]
١ - کسی کی بھلائی یا مطلب برآری کے لیے دوسرے سے کلمات خیر کہنا، شفاعت، سعی، کوشش۔
"سفارشوں اور طرفداریوں کے دروازے قطعی بند کر دیئے جائیں۔"      ( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائل پاکستان، ١٨٣ )
٢ - اچھا یا ضروری سمجھتے ہوئے کسی بات کی تجویز، وضاحت، تصدیق۔
"کمیشن نے اس سوال پر کوئی سفارش کرنا ضروری نہیں سمجھا۔"    ( ١٩٣٧ء، بھارت میں قومی زبان کا نفاذ، ٦٣ )
٣ - مداخلت۔
 لندن کے کمیشن کی سفارش سے پریشان سب شیخ فلسطینی ہیں شاب فلسطین    ( ١٩٣٧ء، چمنستان، ١٢٩ )
٤ - مدد، سہارا۔
 کریں مصلحت اب چلیں کس کے پاس خداسیں سفارش کی رکھ دل میں آس      ( ١٧٦٩ء، آخرگشت، ٧١ )
١ - سفارش لانا
کسی سے سفارش کرانا۔ (جامع اللغات)
٢ - سِفارِش مانْنا
کسی کے کہنے کے بموجب کرنا، شفاعت قبول کرنا۔ (جامع اللغات)
  • recommendation
  • introduction;  intercession;  interest